عظیم مبلغ و مصلح کی وفات ناگہانی
مسجد میں نماز پڑھنے جائیں تو کبھی کبھا رآپ نے پہلی صف سے ایک بندے کو کھڑے ہوکر یہ اعلان کرتے سنا ہوگا ''میری اورآپ کی بلکہ پورے عالم کی کامیابی اللہ نے اپنے دین میں رکھی ہے ،یہ دین ہماری زندگیوں میں کیسے آئے گا اس کیلئے ایک زبردست محنت کی ضرورت ہے ،ابھی کچھ دیر بعد اسی محنت کے بارے میں بات ہوگی تمام حضرات تشریف رکھیں انشااللہ بہت نفع ہوگا''اور پھر نماز کی بقیہ رکعات کے بعد ایک شخص کھڑا ہوکرکچھ دیر گفتگو کرتا ہے جس میں نہ تو خودنمائی ہوتی ہے ،نہ سیاست اور نہ ہی کسی قسم کی دنیاوی غرض و مارکیٹنگ کا عنصر اس بات چیت میں کہیں نظر آتا ہے بلکہ اس مقرر کی گفتگو ایک ہی نقطے کے گرد گھومتی ہے کہ'' اللہ سے ہوتا ہے اور اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتااور حضور نبی کریم ﷺ کے طریقوں پر چل کر دنیا و آخرت کی کامیابی ممکن ہے ورنہ ناکامی ہی ناکامی ہے'' جی ہاں یہ تبلیغی جماعت ہوتی ہے جو میڈیا کے جھنجٹ سے کوسوں دور رہنے کے باوجوددنیا کی سب سے بڑی اصلاحی تحریک بن چکی ہے۔ بلاشبہ اس تحریک کی کامیابی میں اس جماعت کے ذمہ داران کی پرخلوص محنت اور قربانیوں کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے کیوں کہ اللہ قربانی کے بعد اور قربانی کے بقدرہی کامیابیوں سے نوازتا ہے۔گزشتہ روز اس جماعت کیساتھ پون صدی سے وابستہ عظیم مبلغ اور مصلح امت حاجی عبدالوھاب دنیائے فانی سے کوچ کرگئے ۔اناللہ واناالیہ راجعون ۔بلاشبہ یہ اللہ کا نظام ہے کہ ہر جان کو موت کا ذائقہ چھکنا ہے جو بھی دنیا میں آیا ہے اسے لوٹ کر اللہ کے پاس جانا ہے اسی لئے تو کہتے ہیں ۔
حاجی عبدالوھاب 1923ء کو انڈیا کے شہر سہارنپور میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان پاکستان کے شہر بوریوالہ میں ہجرت کرکے آگیا۔گریجوایشن کے بعدآپ نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور تحصیلدار کے طورپر جاب کرتے رہے۔آپ شروع سے ہی مذہبی ذہن کے حامل تھے اور عبدالقادر رائے پوری سے بہت متاثر تھے۔ 1944ء میں آپ بھارت میں تبلیغی جماعت کے مرکز نظام دین میں گئے جہاں تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی کی صحبت میں گزارے گئے چھ ماہ نے ان کی زندگی کو ایک نیااور عظیم رُخ دے دیا۔اس کے بعد انہوں نے تحصیلدار کی نوکری چھوڑ کر اپنی پوری زندگی دین کی تبلیغ و ترویج کیلئے صرف کردی ۔بعدازاں آپ محمدشفیع قریشی اور حاجی محمدبشیر کے بعد تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر مقرر ہوئے ۔2014ء میں عمان کے ایک ادارے رائل اسلامک سٹریٹجک سٹڈیزسنٹرکے سروے کے مطابق آپ کا شمار مسلم دنیا کی پانچ سو بااثر ترین شخصیات میں دسویں نمبر پر ہوتا تھا۔
حاجی عبدالوھاب کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن تبلیغی جماعت سے وابستہ لاکھوں افراد ان کو اپنا روحانی باپ اور رہنماسمجھتے ہیں آپ کے ہاتھوں پر ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا اور بیشمار لوگوں کی زندگیاں آپ کے بیانات سن کر آپ کی دین کیلئے تڑپ اور سچی لگن دیکھ کر تبدیل ہوئیں۔آپ نے حقیقی معنوں میں تبلیغ کے پیغام کو حرزِ جان بنایااور''اللہ سے ہوتا ہے اور اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا''کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے میں اپنا تن من دھن قربان کردیا۔
حاجی عبدالوھاب کو قریب سے دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ آپ انتہائی بے نیاز طبیعت کے مالک تھے دنیاوی حرص و لالچ تو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا ۔ایک بار ایک سابق وزیراعظم انہیں ملنے کیلئے رائے ونڈ گئے اور ساتھ ایک بھاری رقم انہیں چندے کے طور پر دینے کی پیشکش کی لیکن آپ نے کہا کہ ہمیں پیسے نہیں آپ کا وقت چاہئے ۔وزیراعظم کے کافی اصرار کے بعد بھی آپ نے رقم نہ لی تو وزیراعظم نے کہا کہ مولانا صاحب اتنا چند ہ آپ کودینے والا کوئی نہیں ملے گا جس پر آپ نے برجستہ جواب دیا کہ اور آپ کو اتنا چندہ ٹھکرانے والا بھی کوئی نظر نہیں آئے گا۔آپ کی عمر ستانوے برس تھی مگر اس کے باوجود کھانے پینے کی پرواہ کئے بغیر گھنٹوں بیان کرتے تھے اور اس عمر میں بھی روزے رکھتے تھے۔
پوری دنیا میں ہر مسلک میں آپ کو یکساں عزت و احترام حاصل تھا ۔حاجی عبدالوھاب کی وفات پر امت مسلمہ ایک ایسے عظیم مبلغ اور مصلح امت سے محروم ہوگئی ہے جس کا خلا کبھی پورا نہیں ہوگا ۔
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔