ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان میں ٹوئٹر وار
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ پاکستان امریکہ کا ہمیشہ ہی حلیف مُلک رہا ہے۔ پاک افواج کے پاس زیادہ تر اسلحہ اور جنگی جہاز امریکی ہیں۔ علاوہ ازیں، فوج کے سنیئر فسران فوجی تربیت کے اکژ امریکہ بھیجے جاتے ہیں۔ جبکہ بھارت علاقے میں رُوس کا حلیف مُلک رہا ہے۔ قیام پاکستان ہی سے پاکستان کی سیاسی قیادت کا جھکاؤ امریکہ کی جانب رہا ہے۔ شائد ایک مُسلم مُلک ہونے کی وجہ سے ایک دینی قوت کو لا دینی طاقت یعنی رُوس پر تر جیح دی جس کا فائدہ امریکہ نے بھر پُور انداز میں اُٹھایا۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کی آزادی رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی اِس سلسلے میں کبھی نیم دلی کبھی خوش دلی سے حمائیت کی ہے۔ لیکن پاکستان کی توقع کے مُطابق کبھی بھی بھر پُور انداز میں مدد نہیں کی۔ ورنہ ہو سکتا کہ اقوامِ متحدہ میں یہ مسئلہ اتنی دیر تک لٹکا رہتا۔ سویت یونین کے ختم ہو جانے کے بعد، بھارت نے بھی قلا بازی لگائی ا ور امریکہ کی قُربت حاصل کرلی۔ صدر کلنٹن اور اُنکی انتظامیہ کی نظر میں بھار ت کی شکل میں اُنکو یہاں ایک وسیع منڈی ملنے کے مو اقع تھے۔ لہذا انہوں نے سوویت یونین کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے بھارت کی انتظامیہ پر اپنے ڈورے ڈالنے شروع کر دئے۔ بھارت کو اپنی ٹیکنالوجی اور جنگی اسلحہ بیچنے کے لئے پاکستان کی سیاسی قیادت سے تعلقات نچلی سطح پر آ گئے۔ بھارت نے امریکہ کی خُوشنودی حا صل کرنے کے لئے تمام گُر آزمائے اور امریکی قیادت کو بھارت اپنی سیاسی اور تجارتی اہمیت جتانے میں کامیاب ہو گیا۔ لہذا پاکتان کی اہمیت امریکہ کی آنکھوں میں وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی۔ امریکی انتظامیہ یہ بھی بھول گئی تھی کہ رُوسی فوجوں کے انخلاء میں پاکستان نے کس طرح سے مدد کی تھی۔
امریکہ کے نقطہ ء نظر کے مُطابق، پاکستان کے مدد کے عوض امریکہ نے پاکستان کی مالی مدد کی تھی۔ بلکہ امریکہ کو یہ بد گُمانی رہی کہ پاکستان نے امریکہ کی ضرورت کی آڑ میں امریکہ کا اسلحہ جو افغانی مجاہدین کے لئے امریکہ بھیجتا تھا، پاکستان فوج اُس کو چوری کرکے اپنے گودام بھرتی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں، جنرل ضیاء نے امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ایٹم بم بھی تیار کر لیا۔ اس لئے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات ہونے کے باوجود غلط فہمیاں بھی بد ستور باقی تھیں۔ جن کو دُور کرنے کی سفارتی سطح پر کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اِس کو اتفاق کہئے یا شومیء قسمت کہ ۱۹۹۹ ء کے آخر میں جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو معزول کرکے مسندِ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اس سے پہلے جنرل مشرف صدر کلنٹن کی انتظامیہ کی نظر میں ایک نا پسندیدہ شخصیت بن چُکے تھے۔
کارگل کی معرکہ آرائی کا ذمہ دار جنرل مشرف کو قرار دیا گیا۔ واجپائی کے اصرار پر نواز شریف نے اپنی فوجوں کو کارگل سے واپس بُلانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ لیکن صدر کلنٹن کو بتایا گیا کہ فوج اِس اتفاق سے مُطلق خُوش نہ ہوگی۔ جنرل مشرف دوسرے جر نیلوں کے ساتھ مل کر اُن کا تختہ اُلٹ دیں گئے۔ تاہم امریکہ کے صدر کلنٹن نے نواز شریف کو یقین دہانی کر وائی کہ امریکہ اُنکی حکومت کو بچانے کے لئے ہر قسم کی مدد فراہم کرے گا۔ اِس لئے امریکہ نے نواز شریف کو مشرف کے غضب سے بچانے کے لئے بھارت کے رسمی دورے کے بعد اک گھنٹہ پاکستان میں ٹھہر کر جنرل مشرف سے ملنے کی حامی بھر لی۔
اِس مُلاقات میں جو کہ چکلالہ کے ملٹری بیس پر ہوئی، جنرل مشرف کو باور کرویا گیا کہ اُنکی فوجی حکومت امریکی قیادت کی نظر میں آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اگر مشرف کی حکومت امریکہ سے بہتر تعلقات کی توقع رکھتی ہے تو مشرف حکومت کو نواز شریف کو جیل سے رہائی دینی ہوگی۔ جنرل مشرف اُس وقت اِس پوزیش میں نہیں تھے کہ وُہ امریکی حکومت سے سیدھی ٹکر لیں۔ جنرل مشرف نے اپنی مصلحت کے تحت نواز شریف کو رہا کرنے کی حامی بھر لی۔ لیکن قانونی تقاضے پُورے کرنے کے بعد۔ لہذا سعودی حکومت کو یہ کام سونپا گیا کہ وُہ اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے نواز شریف اور اُن کے خاندان کو پاکستان سے نکالے۔ سعودی عرب کی مداخلت سے مشرف نے نواز شریف کی جان بخشی کر دی۔
ایک طرف مشرف نے امریکہ اور سعودی عرب کو خُوش کر دیا اور دوسری طرف انہوں نے نواز شریف سے دس سال کی فراغت حاصل کرلی۔ تاہم جنرل مشرف اور صدر کلنٹن انتظامیہ کے مابین تعلقات کشیدہ ہی رہے۔ امریکی جھکاؤ بھارت کی طرف روز بروز بڑھتا ہی گیا ۔ لیکن حالات نے کروٹ لی اور امریکہ کو بھُولا ہُوا پاکستان ایک دفعہ بھر یاد آ گیا کیونکہ افغانستان میں سکونت پذیر ا لقاعدہ جس کو طالبان کی حکومت کی مکمل حمائت تھی۔ اُس نے امریکہ میں حملہ کرکے امریکہ کی فوجی اور سیاسی طاقت کو گہری چوٹ دی تھی۔ لہذا امریکہ نے اس واقعہ کا بدلہ لینے کے لئے اور طالبان کی حکومت کو مزہ چکھانے کے لئے منصوبہ بندی کی۔ لیکن افغانستان میں حملہ کرنے کے لئے امریکہ کوپاکستان کی اشد ضرورت تھی ۔ لہذا امریکہ کے صدر نے جنرل مشرف سے دو ٹوک الفاظ میں بات کی۔ اور پاکستان کی اَس جنگ میں حمائت حاصل کر لی۔ بیشک اس جنگ میں حصہ لینا پاکستان کے مُفاد میں نہ تھا لیکن امریکہ اور نیٹو جیسے ممالک کے ساتھ جنگ بھی مول نہیں لی جا سکتی تھی۔ لہذا پاکستان کو افغانستان کی اس جنگ میں شریک ہونا پڑا۔القاعدہ اور طالبان جیسی تنظیموں کی انتقامی کاروائی کا نشانہ بننا پڑا۔ جس سے بے شمار قیمتی جانوں کا نُقصان ہوا۔ پاکستان کی معیشت بالکُل تباہ ہو گئی۔ پاکستان کی قیادت کو خوش کرنے کے لئے مالی امداد دی گئی۔ لیکن پاکستان کو دہشت گردی سے بچانے اور معاشی طور پر بحال کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا۔ امریکہ کو بد گُمانی رہی کہ پاکستان کی حکومت امریکہ کے ساتھ صاف دلی اور نیک نیتی سے کام نہیں کام کررہی۔ دہشت گردوں کو مارنے کی بجائے اُنکو حملے سے قبل ہی بھگا دیا جاتا ہے۔ ڈرون حملے اسی بد اعتمادی کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔
اوپر بیان کردہ امریکی اور پاکستان تعلقات کی مختصر داستان کا مطلب یہ ہے کہ دونوں مُلکوں کے درمیان تعلقات ضرور رہے ہیں لیکن شکوک و شُبہات کی دھُند بھی اُن پر چھائی رہی ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر دل سے بھروسہ نہیں کیا۔ پاکستان نے امریکہ پر کُلی طور پر بھروسہ کرنے کے بجائے چین اور رُوس کے ساتھ سیاسی اور تجارتی تعلقات کو بڑ ھانا شروع کر دیا۔ یہ صورتِ حال امریکہ اور نیٹو ممالک کے لئے قابل برداشت نہیں۔ امریکہ پاکستان سے چاہتا ہے کہ پہلے کی طرح پاکستان افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑے۔ امریکہ سیاسی اور معا شی دباؤ ڈال کر پاکستان کو مجبور کر دینا چاہتا ہے کہ پاکستان امریکی مطالبات کے سامنے گھُنے ٹیک دے اور اپنے مُلک کے مُفادات کو یکسر بھول جائے۔ لیکن عمران خان امریکہ کی اس خوہش کو پورا کرنے کے مُوڈ میں ہر گز نہیں ہیں۔ عمران خاں اور صدر ٹرمپ کے درمیان ٹویٹ کے ذریعے ہونے والی گُفتگو با لکُل خُوشگوار نہیں کہی جا سکتی۔ امریکہ نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ امریکی امداد کے بدلے پاکستان نے امریکی مُفادات کے لئے کُچھ نہیں کیا۔ لہذا امریکہ نے پاکستان کی مالی امدادبند کر دی ہے۔ عمران خاں نے صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا ہے کہ امریکہ کو اپنا ریکارڈ دُرست کرنا چاہئے۔ افغانستان میں پاکستان نے اپنی نہیں بلکہ امریکہ کی جنگ لڑی ہے۔۵ ۷ہزار کے قریب پاکستانیوں نے جانیں گنوائی ہیں۔ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نُقصان اٹھا یا ہے۔ امریکہ نے نُقصان کی تلافی کے وعدے کے باوجود پاکستان کو بیس ارب ڈالر ادا کئے ہیں۔ دونوں سربراہان کا لہجہ کافی حد تک ترُش تھا۔ دونوں ہی لیڈروں کو چاہئے تھا کہ وُہ سفارتی آداب کا پاس رکھتے۔ لیکن اس کو اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں لیڈر اقتدار میں پہلی دفعہ آئے ہیں۔ لہذا انہوں نے ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے کی بجائے اُس کا تُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔ جس سے یہ اندازہ کرنا مُشکل نہیں کہ دونوں اپنے ملکی مُفادات اور سو چوں کے اعتبار سے واضع اختلاف رکھتے ہیں۔ بیشک امریکی وزارت خاجہ نے یہ تا ثر دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بدستور جاری رہیں گے اور پنٹا گوں نے بھی اشارہ دیا ہے کہ امریکی اور پاکستانی فوج کا تعاون بدستور قایم ہے۔ لیکن ان تمام بیانات کے باوجود تعلقات مین تناؤ بالُکل موجود ہے۔اُمید ہے حکومت سخت بیانوں کے مضمرات اور اثرات سے بخُوبی آگاہ ہوگی۔ تاہم ایسے بیانات تعلقات کو خراب ہی کرنے کا با عث بنتے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ وُہ حکومتی مُوقف سفارتی آداب کے مُطابق جاری کرے۔
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔