اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 84
روز کے مطابق اس نے سلاخوں میں سے ہاتھ بڑھا کر روٹیاں اندر پھینک دیں اور مجھے آواز دی۔ میں اسی لمحے کا انتظار کر رہا تھا۔ جوں ہی اس نے روٹیاں پھینکنے کے لئے اندر ہاتھ ڈالا ، میں نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔ پہرے دار ہکا بکا رہ گیا۔ کھینچنے سے اس کا سر بڑے زور سے سلاخوں سے ٹکرایا اور اس نے خنجر نکال کر میرے ہاتھ پر وار کیا لیکن اس کے وار سے میرا کیا بگڑ سکتا تھا۔ میں نے اس کی گردن دبوچ کر دو چارجھٹکے دیئے اور اس کا کام تمام کر دیا۔ مجھے اس کی جیب سے تالے کی چابی نکالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں اپنی زنجیریں پہلے ہی توڑ چکا تھا۔ قید خانے کی سلاخوں کو میں نے بڑی آسانی سے اکھاڑ کر پرے پھینک دیا۔ پہرے دار فدائی کی لاش کو کوٹھری کے اندر ڈالا اور اوپر جانے والے راستے کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 83 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قلعہ الموت کے نشیب و فراز سے مجھے کسی حد تک واقفیت ہوچکی تھی۔ میں قلعے کی پہلی منزل کے تختے پر آگیا۔ یہاں میں نے کئی جگہوں پر شمعیں روشن دیکھیں تو احساس ہوا کہ رات کا وقت ہے اور میرا اندازہ غلط نہیں تھا۔ میں نے اس طرح چلنا شروع کردیا جیسے میں پہرہ دے رہا ہوں۔ کئی راہداریوں اور نیم روشن غلام گردشوں سے گزر کر میں نہر کے کنارے والے چبوترے کے پاس پہنچ گیا۔ یہاں میری جگہ ایک اور دوسرا فدائی نہر کی نگرانی پر مامور تھااور وہ چبوترے کے پاس نہر کے کنارے ٹہل کر پہرہ دے رہا تھا۔ اس کے عقب میں پتھریلی دیوار پر ایک مشعل روشن تھی جس کی روشنی میں اس کی کمر کے ساتھ لٹکتا خنجر صاف نظر آرہا تھا۔ مجھے یہ پریشانی تھی کہ میری کنیز دوست بانیکا، فائقہ کو لے کر یہاں آئے گی تو یہ پہرے دار اسے پکڑلے گا اور پھر ان دونوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے گا۔ قلعے میں تو قدم قدم پر موت رقص کرتی پھرتی تھی اور شیخ الجبال کی کنیز خاص بلکہ حرم خاص کو شاہی محل سے نکال لے جانے کی سزا ایک المناک موت کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی۔
نہر کوئی چھ سات قدم تک بہنے کے بعد ایک پہاڑی سرنگ میں داخل ہوجاتی تھی۔ میرا منصوبہ اس سرنگ میں سے فائقہ کو نکال لے جانے کا تھا۔ مجھے داہنی غلام کی گردش کے اندھیرے میں دو انسانی سائے حرکت کرتے دکھائی دئیے چونکہ میری نگاہ اندھیرے میں بھی اشیاء کے ہیولے دیکھ سکتی تھی اس لئے میں نے دیکھا کہ آگے آگے حبشی کنیز بانیکا تھی اور اس کے پیچھے گورے رنگ کی ایک لڑکی سیاہ چادر میں لپٹی پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی چلی آرہی تھی۔ پہرے دار فدائی کو دیکھ کر کنیز بانیکا نے فائقہ کو وہیں روک لیا۔ دونوں اندھیرے میں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئیں۔ اب مجھے اپنا کام کرنا تھا۔ جہاں میں کھڑا تھا وہاں بھی اندھیرا تھا میں نے زمین سے ایک پتھر اٹھا کر نہر میں پھینک دیا۔
پانی میں پتھر گرنے کی آواز پر پہرے دار فدائی چونکا۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور پھر پیش قبض سے خنجر نکال کر لپکا۔ میں پتھروں پیچھے ہوگیا۔ پہرے دار نے آواز دی۔ ’’کون ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ اپنا سوال دوسری مرتبہ دہراتا میرا وزنی مکا پتھر کے ایک ستون کی طرح اس کی گردن پر پڑا اور وہ دہرا ہوکر زمین پر گر پڑا اور اس کی گردن کی ہڈیوں کے مہرے کئی جگہوں سے ٹوٹ چکے تھے۔ میں بھاگ کر اس طرف اندھیرے میں چلا گیا جہاں حبشی کنیز بانیکا اور فائقہ سہمی ہوئی کھڑی تھیں۔ بانیکا نے کہا
’’یہ ہے تمہاری امانت۔ میں نے اس کو ساری بات بتادی ہے۔ یہ اپنی ماں سے ملنے کو بے تاب ہے۔‘‘
میں نے اپنی دوست حبشی کنیز کا شکریہا دا کیا اور کہا
’’میں تمہیں کبھی نہیں بھلاؤں گا بانیکا‘‘
بانیکا نے اندھیرے میں مجھے چمکیلی آنکھوں سے دیکھا۔ ان آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی مجھے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے فائقہ سے کہا’’فائقہ! میرے ساتھ آؤ۔ کیا تم اپنی والدہ کے پاس جانے کو تیار ہو؟‘‘
فائقہ کا چہرہ اندھیرے میں چاند کی طرح چمک رہا تھا اور آنکھوں سے نیلی نیلی کرنیں نکل رہی تھیں۔ فائقہ واقعی بہت خوبصورت تھی اور جنت ارضی کی کوئی حور لگ رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے کہا ’’خدا کے لئے مجھے میری امی کے پاس لے چلو۔‘‘
بانیکا نے کہا ’’اب تم لوگ دیر نہ کرو۔ لیکن کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ نہر تمہیں قلعے سے باہر نکال دے گی؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’مجھے اپنے خدا پر بھروسہ ہے۔ وہ ہمیں یہاں سے ضرور نکال دے گا۔‘‘
میں نے آخری بار اپنی دوست حبشی کنیز کو دیکھا۔ مجھے معلوم تھا کہ شاید اب میں اس کی زندگی میں اسے کبھی دوبارہ نہ دیکھ سکوں گا۔ میرے دل میں بھی اس کی محبت اور ایثار کا گہرا اثر تھا۔ مگر میں سوائے شکریہ ادا کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ میں نے فائقہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے تقریباً کھینچتا ہوا نہر کے کنارے اس مقام پر لے گیا جہاں نہر سرنگ میں داخل ہوتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ نہر کا پانی تین چار فٹ سے زیادہ گھر نہیں ہے اور سرنگ کی چھت سے ایک فٹ نیچے رہتا ہے۔ میں نہر میں اترگیا اور ہاتھ پکڑ کر فائقہ کو بھی نہر میں اتارلیا۔ پانی ٹھنڈا تھا۔ فائقہ کی گردن تک پانی میں ڈوب گئی تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنا شروع کردیا۔
مجھے اس امر کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ نہر قلعہ الموت کی پہاڑیوں سے ہوتی ہوئی کہاں جانکلتی ہے لیکن اس قدر اطمینان ضرور تھا کہ آخر کہیں باہر کھلے مقام پر ہی جاکر نکلے گی۔ ایک خدشہ بار بار میرے دل میں پیدا ہورہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نہر کہیں آگے جاکر کسی زیر زمین دریا سے مل گئی ہو کیونکہ اس صحرائی علاقے میں ایسے دریا بھی تھے جو زمین کے اندر بیتھے تھے۔ اگر ایسا ہوا تو فائقہ کا زندہ رہنا ناممکن تھا۔ مجھے اس وقت بھی اس کا فکر لگاہوا تھا کہ اگر نہر زیادہ پیچ اور لمبی ہوئی تو خدا جانے کہیں خوف و دہشت کے مارے اس نازک اندام حسین لڑکی کا دم ہی نہ نکل جائے۔ مگر وہ بڑی ثابت قدمی سے میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ہم گردن تک پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ہمارے اوپر پہاڑ کی چھت تھی جو ہمارے سروں سے چند انچ ہی اونچی تھی۔ میں فائقہ کو حوصلہ دئیے جارہا تھا۔ اسے خود بھی احساس تھا کہ وہ موت کے منہ سے نکل کر آرہی ہے اور اسے اپنی امی کے پاس پہنچنا ہے۔ اس لئے وہ پورے عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔
پانی کے بہاؤ میں تیزی نہیں تھی۔ سرنگ میں اندھیرا تھا۔ فائقہ نے دونوں ہاتھوں سے میرے کاندھوں کو پکڑرکھا تھا۔ فائقہ کی وجہ سے میں سرنگ کی دیوار کو پکڑے ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھ رہا تھا کہ انجانے میں میرا پاؤں کسی گڑھے میں نہ گرپڑے اور فائقہ غوطہ کھا بیٹھے۔ نہر کی سرنگ ایک طرف کومڑگئی۔ یہاں مجھے اپنے پاؤں کے نیچے پانی میں گول گول پتھروں کا احساس ہوا۔ میں فائقہ کا دل بہلانے کے لئے اس سے اس کی والدہ کی باتیں کرنے لگا۔ اس نے مجھے بتایا کہ فدائین نے اس کے باپ کو قتل کردی تھا اور اسے اغوا کرکے لے گئے تھے۔
’’خداوند کریم نے آپ کو رحمت کا فرشتہ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
پانی کا بہاؤ تیز ہونا شروع ہوگیا۔ میں نے محسوس کیا کہ فائقہ کے قدم اکھڑنے لگے ہیں۔ سرنگ ڈھلانی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں تیزی آگئی تھی۔ خود میرے پاؤں بھی تیز لہروں میں بار بار کھڑجاتے تھے مگر میں مضبوطی سے قدم جما کر چل رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ فائقہ کا جسم خوف کے مارے آہستہ آہستہ کانپ رہا ہے۔ میں نے اسے حوصلہ دیا کہ ڈھلان کی وجہ سے پانی کی روانی میں تیزی آگئی ہے لیکن خود میں بھی پریشان تھا کیونکہ ڈھلان اور زیادہ نیچائی کی طرف جارہی تھی اور بہاؤ اتنا تیز ہوگیا کہ فائقہ کے قدم اکھڑگئے۔ اس کے حلق سے دہشت بھری آوازیں نکلنے لگی تھیں۔ یہ سوچ کر میری جان ہوا ہوگئی کہ کہیں یہ نہر زمین کے اندر گہرائیوں میں بہنے والے کسی دریا سے تو جاکر نہیں مل جاتی؟
یہ بڑی بھیانک بات تھی اور اس صورت میں فائقہ کا زندہ رہنا محال تھا۔ مجھے خود احساس ہونے لگا تھا کہ جیسے میں پانی کی قبر میں آگیا ہوں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ڈھلان ختم ہوگئی۔ پانی کے بہاؤ میں سستی آگئی اور وہ ہموار زمین پر بہنے لگا۔ پانی کی سطح کم ہونے لگی تھی۔ یہ بڑی خوش آئند بات تھی۔ میں نے فائقہ کو ایک بار پھر تسلی دی۔ مگر وہ خاموش تھی اور میرے پیچھے پیچھے میرے کاندھے تھامے چلی آرہی تھی۔ سرنگ میں گھپ اندھیرا تھا۔ مگر اس اندھیرے میں بھی مَیں سرنگ کی دیوار اور چھت کے پتھروں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ پانی ہمارے کاندھوں سے بھی نیچے آگیا تھا۔ اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کیونکہ نہر کا پاٹ اتنا ہی تھا۔ دو تین موڑ گھومنے کے بعد یہ معمہ بھی حل ہوگیا۔(جاری ہے )