اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 52
ایک مرتبہ عید کے دن شیخ نجیب الدین متوکلؒ کے گھر میں درویش جمع ہوئے۔ اس دن آپ کے پاس کچھ نہ تھا۔ بالا خانے پر جا کر یاد حق میں مشغول ہوگئے اور اپنے دل میں کہتے تھے۔ ’’ یا اللہ عید کا دن ایسے ہی گزر جائے اور میرے بچے کھانے کو ترس جائیں اور مسافر آئیں تو وہ بھی نامراد واپس جائیں۔‘‘
اسی خیال میں تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پیر مرد چھت پر سے چلا آرہا ہے اس پر مرد نے آگے بڑھ کر آپ کی خدمت میں کھانے سے بھرا ہوا خوان پیش کیا اور کہا۔ ’’ تمہارے توکل کی دھوم عرش میں مچی ہوئی ہے۔ اور تم ایسے خیال میں مشغول ہو۔ ‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’ حق تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے اپنے لیے یہ خیال نہیں کیا بلکہ اپنے یاروں کے لیے ملتفت ہوا تھا۔ ‘‘ غالباً وہ بزرگ خواجہ خضرؑ تھے۔
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
حضرت غوث الاعظمؒ ابھی تین برس ہی کے تھے کہ ایک دن آپ کے والد محترم کو یوسف گیلانیؒ نامی بزرگ نے اطلاع دی کہ ہر مزبن سفیان آپ لوگوں کو قتل کرنے کی فکر میں ہے۔آپ کے والد محترم گھر آئے اور اس سے پہلے کہ حضرت یوسف گیلانیؒ کی خبر اپنی بیوی کو سنائیں، اس نے اپنے شوہر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’لڑکا بار بار کہتا ہے کہ بغداد چلو۔‘‘
اس پر آپ کے والد محترم نے کوئی بات نہ کی۔ بلکہ اسی وقت سب کو لے کر بغداد کی جانب روانہ ہوگئے۔
***
ایک دفعہ سفر کے دوران حضرت عثمان ہارونیؒ ایک ایسے گاؤں میں داخل ہوئے جہاں کے لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے۔ شام قریب تھی اس لئے آپ عصر کی نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ نماز کے بعد آپ نے ایک مرید کو بھیجا کہ سامنے کے گاؤں سے آگ لے آئے۔ مرید پہنچا تو آتش کدے کے پیر نے اسے جھڑکا اور بتایا کہ یہ آگ پاک ہے اور وہ اسے کسی قیمت پر بھی نہیں دے سکتا۔ مرید ناکام واپس آگیا۔
مغرب کی نماز کے بعد حضرت عثمانؒ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آتش کدے پر پہنچے اور انہیں سمجھایا کہ آگ ایک حقیر مخلوق ہے اور اس کی عبادت کرنا زندگی کو ضائع کرنا ہے۔ مگر وہ لوگ نسلوں سے آگ کی پوجا کرتے آئے تھے۔ اس لئے انہوں نے حضرت عثمان ؒ کی ایک نہ مانی۔ مجبوراً حضرت عثمانؒ نے آتش کدے کے پیر کے سات سالہ بچے کو گود میں اٹھایا اور آگے میں کود پڑے۔ آگ پوجنے والوں نے چیخ و پکار شروع کردی مگر بچہ آپ کی گود میں سکون سے بیٹھا آتش پرستوں کی جانب دیکھ دیکھ کر مسکرارہا تھا۔
آپ کچھ دیر آگ میں رہے پھر بڑے اطمینان سے باہر نکل آئے۔ آپ کو اور بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ یہ دیکھ کر تمام آتش پرست آپؒ کے قدموں پر گر پڑے اور اسلام قبول کرلیا۔اس کے بعد آپ نے پیر کا نام عبدہ اور بچے کا نام ابراہیم رکھا۔ آتش کدے کی جگہ ایک چھوٹی سی مسجد بنائی۔
***
ایک مرتبہ حضرت غوث الاعظمؒ وعظ فرمارہے تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور لوگ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے۔ حضرت غوث پاکؒ نے آسمان کی طرف نظر کی اور فرمایا:’’یا الہٰی! مَیں لوگوں کو تیرے ذکر کے لئے جمع کرتا ہوں اور بارش ان کو منتشر کررہی ہے۔‘‘
اسی وقت بارش رک گئی۔ لوگ بھی چلتے چلتے رک گئے اور واپس آکر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد آپ اطمینان سے وعظ فرماتے رہے۔
***
ہمشیرہ کی ضد کرنے پر حضرت بابا فرید الدین شکر گنجؒ نے اپنی ایک صاحبزادی کی شادی اپنے بھانجے علاؤالدین صابرؒ کلیری کے ساتھ کردی۔جب حضرت صابرؒ نے اپنی دلہن کو دیکھا تو ماں سے پوچھا ’’یہ کون ہے؟‘‘
والدہ محترمہ نے بڑی محبت سے جواب دیا۔ ’’بیٹا! یہ تیری بیوی اور شریک حیات ہے۔‘‘
حضرت مخدوم نے فرمایا ’’میں تو ایک کاہوچکا پھر درمیان میں یہ دوسرا کون آگیا؟‘‘
یہ کہہ کر آپ نے دلہن کی طرف دیکھا۔ فوراً ہی ایک شعلہ سا بھڑکا اور ایک رات کی دلہن جل کر خاک سیاہ ہوگئی۔***(جاری ہے )