انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 23
انسانی سمگلنگ اور ایشیاء میں ایڈز کا مرض
1980ء کے ابتدائی برسوں میں جب دنیا کے دیگر ممالک (Hiv Aids) ایڈز سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف تھے تو ایشیاء اس سے غیر متعلق رہا۔ لیکن 1990ء تک ایڈز کی وباء کئی ایک ایشیائی ممالک میں پھیل چکی تھی۔ 90ء کی دہائی کے اختتام تک یہ براعظم کے بہت سے حصوں میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔ آج اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو جنوب ، مشرق اور جنوب مشرقی ایشیاء کے 48 لاکھ باشندوں کو یہ اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اگرچہ براعظم کے بے شمار ممالک بڑی آبادیوں پر مشتمل ہیں۔ اس لئے کل آبادی کے لحاظ سے مریضوں کی اوسط تعداد کم نظر آتی ہے۔ لیکن اگر ان ممالک کے اعداد و شمار کو جمع کیا جائے تو یہ بھی ایک بہت بڑی تعداد بنتی ہے۔ مثلاً انڈیا میں 15 سے 49 سال کے بالغ افراد کی 0.1فیصد تعداد ایڈز میں مبتلا ہے۔ یہ تعداد براعظم افریقہ کے صحارا کے ذیلی ممالک کے مقابلے میں بہت کم نظر آتی ہے۔ لیکن اگر 1 بلین آبادی والے ملک انڈیا میں ٹوٹل ایڈز زدہ افراد کی تعداد کو سامنے لایا جائے تو 23 لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ لیکن وہاں اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ 2013ء کے اعدادو شمار کے مطابق یہ تعداد 48 لاکھ سے کم ہو کر 38 لاکھ تک رہ گئی ہے۔ یعنی 2001ء کے مقابلے میں 2013ء میں صرف انڈیا میں 56 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایشیائی علاقوں میں ایڈز کے مجموعی اثر کا جائزہ لینا بھی قارئین کے لئے مفید رہے گا۔ یہ تمام ایشیاء میں مختلف صورتحال کی عکاسی کرتی ہے اور کسی ایک ملک میں یہ وبائی مرض اپنے طور پر نہیں پھیلی۔ کئی ایک ممالک میں اس میں کمی بھی واقع ہوئی ہے جیسا کہ کمبوڈیا، میانمار اور تھائی لینڈ ہیں۔ اس کے برعکس یہ مرض انڈونیشیا، پاکستان اور ویتنام میں بھی ہے۔ ایڈز میں مبتلا افراد کی تعداد میں ان ممالک میں 7% اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح کچھ ممالک کے اندر مختلف علاقوں میں مختلف اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ مثلاً چین کے پانچ صوبوں میں 53 فیصد افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ ایشیاء میں افریقہ کے ذیلی صحارہ ممالک کے بعد جہاں ہر روز .9 افراد ایڈز سے مرتے ہیں سب سے بڑا خطہ ہے جہاں اس مرض نے لاکھوں افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔ کچھ ماہرین اس حوالے سے خبردار کر چکے ہیں کہ ایشیاء میں ایڈز کی وباء کچھ افریقی حصوں کے برابر بڑھ سکتی ہے۔ تاہم دیگر ماہرین کا موقف ہے کہ ایشیاء میں ایڈز کے جراثیم کی ترسیل افریقہ کی نسبت مختلف خطِ حرکت پر پائی جاتی ہے اور ایشیاء میں اس مرض میں انتہائی سطح تک ڈوبے ہوئے طبقوں پر وسیع پیمانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔
ایشیاء میں ایڈز کی منتقلی کی تین وجوہات بیان کی جاتی ہیں ۔ ان میں اول وہ غیر محفوظ جنسی عمل جس کے لئے ادائیگی کی گئی ہویا ادائیگی کے بغیر غیر محفوظ جنسی عمل۔ ان دونوں طریقوں سے ایشیاء کے کئی ایک ممالک میں نئے افراد کے ساتھ ملاپ سے ایڈز پھیلتی ہے۔ یوں سیکس ورکر ز اور ان کے نمائندے آبادی کے ایک بڑے حصے کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ یعنی 10 سے 0.5 افراد اور 15 فیصد مرد باقاعدگی سے جنسی عمل کے لئے ادائیگی کرتے ہیں۔ ان میں 11 جنسی عمل کے دوران احتیاطی تدابیر استعمال کرتے ہیں جن میں کنڈوم کا استعمال بھی شامل ہے۔ یہ عوامل ایشیاء میں ایڈز کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔مزید یہ کہ شادی شدہ عورتیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی بہت کم تعداد ایڈز میں مبتلا ہے میں یہ مرض تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔ ایڈز پر کی جانے والی ایک درجن سے زائد سروے رپورٹس میں ایشیاء کے کئی ممالک میں نئے ایڈز زدہ افراد میں 25 سے 40 فیصد گھریلو عورتیں پائی گئی ہیں جو گرل فرینڈز یا بیویاں ہیں۔ ان کو یہ مرض ادائیگی کر کے سیکس خریدنے والوں سے لاحق ہوئی ۔ ان خواتین کے دوسرے مردوں کے ساتھ ملنے اور منشیات کے استعمال سے دیگر لوگ بھی متاثر ہوئے۔
براعظم ایشیاء میں منشیات کے ذریعے ایڈز کا پھیلاؤ ایک اہم عنصرہے۔خاص طور پر چین، انڈونیشیا، ملائشیا اور ویتنام میں منشیات (ہیروئن اور افیون کی پیداوار کی بڑی مقدار ان ممالک میں پیدا ہوتی ہے) کے استعمال سے یہ مرض عام ہوتی جا رہی ہے۔ چین میں ایڈز کے مریضوں کی آدھی تعداد منشیات کی عادی تھی۔ اس طرح شمال مشرقی انڈیا میں ایچ آئی وی کی وجوہات میں ڈرگز کا استعمال عام چیز تصور کی جاتی ہے۔ البتہ یہ بات ابھی تک عیاں نہیں ہوئی کہ منشیات کا استعمال پہلے شروع ہوا یا ایسے افراد پہلے سیکس ورکرز بنے۔
ابتدا میں ایشیاء میں ایڈز کے مریضوں میں ایسے مرد شامل تھے جو جنسی طور پر گمراہی میں مبتلا تھے ۔ کئی ممالک میں ابھی تک یہ افراد ایڈز کی منتقلی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ایشیاء میں مردوں کے ساتھ سیکس کرنے والے مرد اپنے آپ کو سماجی خوف کی بنا پر ہم جنس پرست ظاہر نہیں کرتے کیونکہ تمام ایشیائی معاشروں میں ہم جنس پرستی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ان مردوں میں ایسے بھی شامل ہوتے ہیں جو خاندانوں کے سربراہ یا بچوں کے واحد کفیل ہوتے ہیں۔ ایسے مرد جن کی بیویاں بھی ہوں اور وہ ہم جنس پرستی میں ملوث ہوں ،کے ذریعے ایڈز کی مرض بہت جلد پھیلتی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ہم جنس پرستوں میں ایڈز کو کم کرنے کے نئے عوامل بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس گھناؤنے جرم کے ذریعے کمبوڈیا، چین، نیپال، پاکستان، تھائی لینڈ، ویتنام، انڈیا، انڈونیشیا، میانمار اور فلپائن میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماں سے بچے کو ایڈز کی منتقلی بھی ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ 2010ء کے اختتام پر جنوب اور جنوب مشرقی ایشیاء میں ایک لاکھ 50 ہزار جبکہ 8 ہزار بچے مشرقی ایشیاء میں ایڈز میں مبتلا تھے۔ ان کی اکثریت ماؤں سے بچوں میں مر ض کی منتقلی سے متاثر ہوئی۔
ایشیاء میں ایڈز کے علاج کی سہولتوں کو 2003ء اور 2006ء کے درمیان تین گنا بڑھا دیا گیا۔ اگرچہ یہ حوصلہ افزا اقدام ہے اور جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیاء کے 36 فیصد مریض اس مرض کا علاج کروا رہے ہیں۔ ایڈز کے علاج تک رسائی کو خطے میں عام کر دیا گیا ہے۔ تھائی لینڈ میں 67 فیصد اور کمبوڈیا میں 92 فیصد مریضوں کا علاج کیا گیا جبکہ ملائشیا اور فلپائن میں ایسے افراد کی تعداد بالترتیب 36%سے 51% ہے۔
ایڈز کے علاج میں بڑی رکاوٹ مہنگی ادویات ہیں۔ کئی ممالک کو اس جان لیوا بیماری سے بچاؤ کے لیے ادویات کی دستیابی کا مسئلہ درپیش ہے۔اگرچہ اب ایشیاء میں کئی ایک فارما سوٹیکل کمپنیوں نے سستی ادویات تیار کرنا شروع کر دی ہیں اور سستے اینٹی وائرل کی دستیابی سے حکومتوں کے لئے ادویات کا حصول تو آسان ہوگیا ہے لیکن کمزور مقامی ہیلتھ نیٹ ورک کے باعث مجاز ڈاکٹرز کی کمی سے مریضوں تک ان کی رسائی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے ایڈز زدہ لاکھوں مریضوں کے لئے زندگی بھر جاری رکھے جانے والے پروگرام متاثر ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں ایڈز کی بیماری انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔قارئین کی معلومات کیلئے پاکستان میں ایڈز کے مرض کے حوالے سے تفصیلات اس کتاب کا حصہ بنائی جا رہی ہیں تاکہ پاکستانی قاری اس موذی مرض سے واقفیت حاصل کر سکیں۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 24 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں