کیا پرویز الٰہی کی لاٹری نکل سکتی ہے؟
نوازشریف کے لندن جانے کی پس پردہ کہانی ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی،تاہم وہ جا چکے ہیں۔ ایک بڑا واقعہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ ان کی ملک سے رخصتی اندرون ملک کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟ اس کا نتیجہ اگلے کچھ ہفتوں میں سامنے آئے گا، تاہم اس سارے کھیل سے چودھری برادران نے خوب فائدہ اٹھایا۔کیا یہ فائدہ انہیں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی دے سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل بڑی شدت سے گردش کر رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور پھر نوازشریف کی بیماری کے موضوع پر چودھری پرویز الٰہی خاصے سرگرم رہے۔ دونوں پہلوؤں پر انہوں نے کھل کر اپنا کردار ادا کیا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ فرنٹ فٹ پر کھیلے۔ خاص طور پر نوازشریف کو باہر بھیجنے پر حکومت اور کابینہ تذبذب کا شکار تھی تو چودھری پرویز الٰہی نے پے در پے انٹرویو دیئے، حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ رکاوٹیں ختم کرے حتیٰ کہ یہ کردار اتنا نمایاں ہو گیا کہ خود شہبازشریف کو بھی چودھری برادران کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔
اسی دوران مولانا فضل الرحمن کی حکومت سے ڈیل کرانے کی افواہیں بھی اڑیں، جن کی مولانا فضل الرحمن نے تردید کر دی، تاہم یہ ضرور کہا گیا کہ دھرنا ختم کرانے میں چودھری برادران، خصوصاً پرویز الٰہی نے اہم کردار ادا کیا۔ انہی دنوں جب وزیراعظم عمران خان دو روز کی رخصت پر گئے تو پورا ملک افواہوں کی زد میں آ گیا۔ ان ہاؤس تبدیلی کی باتیں زبانِ زد عام ہو گئیں اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا ہما پرویز الٰہی کے سر بیٹھنے والا ہے۔ اگرچہ چودھری پرویز الٰہی نے دبے دبے لفظوں میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے، لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اب اپنے ہدف کی تلاش میں ہے۔
کیا واقعی اس سیاسی منظر نامے میں چودھری پرویز الٰہی کی لاٹری نکل سکتی ہے، اور وہ اپنے دس ووٹوں سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا تاج اپنے سر سجا سکتے ہیں؟ گیم تو انہوں نے بہت اچھی کھیلی ہے، کردار تو بڑی چابکدستی سے ادا کیا ہے، لیکن آگے پہاڑ کھڑا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا اسے کیسے سر کریں گے۔ کیا وہ ان سے بالا بالا پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ افواہیں تو گرم ہیں کہ مسلم لیگ (ن) چودھری برادران کے حالیہ کردار کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے لئے چودھری پرویز الٰہی کو بطور وزیراعلیٰ قبول کر سکتی ہے، کیونکہ مقصد عمران خان کو ناکام بنانا ہے اور مرکز میں تبدیلی سے پہلے پنجاب میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔
شاید اس سارے کھیل کی بھنک وزیراعظم عمران خان کو بھی پڑ گئی اور انہوں نے ہزارہ موٹروے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سخت لب و لہجہ اختیار کیا۔ انہوں نے ایک ہی تیر سے کئی شکار کئے۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، اپوزیشن اور اپنے اتحادیوں کو واضح پیغام دیا کہ وہ ہار سے ڈرنے والے نہیں، بلکہ چیلنج کو قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر سازشی تھیوری کو رد کیا اور اس کے خلاف پورے عزم سے لڑنے کا عندیہ دیا۔ پیغام اتنا واضح تھا کہ ایک طرف ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومت اور فوج میں مثالی ہم آہنگی کا بیان دیا تو دوسری طرف چیف جسٹس نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماڈل کورٹس کی وجہ سے عدلیہ نے اپنی ساکھ بحال کی ہے، جبکہ چودھری پرویز الٰہی مختلف چینلوں پر یہ کہتے پائے گئے کہ حکومت اور اتحادیوں میں کوئی اختلاف نہیں، دراڑیں ڈالنے والے ناکام ہوں گے۔
کیا چودھری پرویز الٰہی نے حالیہ دنوں میں اپنے داؤ پیچ سے وزیراعظم عمران خان کو بالواسطہ طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ پانچ سال حکومت کرنی ہے تو پنجاب میں ایک مضبوط حکومت قائم کرنا ہو گی اور یہ کام صرف وہی کر سکتے ہیں۔ کیا ان کے اس پیغام کا وزیراعظم عمران پر کوئی اثر ہو گا یا پرویز الٰہی کو مزید زور لگانا پڑے گا، یہ حقیقت تو واضح ہو چکی ہے کہ پچھلے دو تین ہفتے عمران خان کے لئے بہت زیادہ بحرانی نوعیت کے تھے۔
جب تک اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کا دھرنا موجود رہا، ان کی حالت ایک دفاعی کھلاڑی جیسی رہی۔ وہ مفاہمانہ بیانات دیتے رہے۔ اس دوران چودھری برادران کے کردار کو بھی انہوں نے سراہا، جو وہ دھرنا ختم کرانے کے لئے ادا کرتے رہے۔ چودھری پرویز الٰہی ان سے مسلسل رابطے میں بھی رہے، لیکن اسی دوران چودھری برادران کے نوازشریف کی بیماری کے حوالے سے عمران خان کو وارننگ دینے جیسے بیانات نے سیاسی طور پر اس تاثر کو جنم دیا، جیسے وہ عمران خان پر نفسیاتی دباؤ ڈال رہے ہیں، اس سے یہ تاثر ابھرا کہ حکومت کے اتحادی بھی اس کے خلاف ہو گئے ہیں، تاہم چودھری برادرن نے یہ قدم اٹھا کر شریف برادران کے ساتھ اپنی روائتی مخالفت کے تاثر کو زائل کر دیا۔ برف اتنی پگھلی کہ شہبازشریف شکریہ ادا کئے بغیر نہ رہ سکے۔
ایک طرح سے یہ بھی عمران خان پر ایک دباؤ کی صورت تھی، کیونکہ پنجاب اسمبلی میں اگر چودھری برادران مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کر لیں تو بآسانی پنجاب کی حکومت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسی دوران منصوبہ بندی سے یہ خبریں بھی سامنے لائی گئیں کہ عمران خان کو اپنے حکومتی سیٹ اپ میں تبدیلی لانی چاہیے، وگرنہ وہ گورننس کے لحاظ سے بالکل ناکام ہو گئے ہیں۔ شیخ رشید احمد بھی چودھری برادران سے اپنے پرانے تعلقات کو نبھاہتے ہوئے اس گورننس کے مسئلے کو سامنے لائے۔ یہ افواہیں بھی زیر گردش ہیں جہانگیر ترین سے بھی چودھری برادران رابطے میں ہیں، جو عثمان بزدار کے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔وفاقی کابینہ میں تو عمران خان بڑی تبدیلی کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکے ہیں، اگلے چند دنوں میں خاصی اکھاڑ پچھاڑ متوقع ہے، لیکن کیا وہ پنجاب میں تبدیلی لائیں گے؟ کیا وہ تحریک انصاف کے کسی اور آدمی کو وزارتِ اعلیٰ دیں گے یا پھر چودھری پرویز الٰہی کو اپنا وزیراعلیٰ قبول کر لیں گے؟
سوال یہ بھی ہے کہ پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو میں یہ کیوں کہا کہ جنرل پاشا نے مسلم لیگ (ق) سے بندے توڑ کر تحریک انصاف کو دیئے، انہوں نے بطور خاص علیم خان کا نام بھی لیا، جس کی بعدازاں علیم خان نے تردید کر دی اور کہا عمران خان خود ان کے گھر آئے تھے، جنرل پاشا سے تو ان کی زندگی میں کبھی ملاقات تک نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ (ق) سے تو بیسیوں لوگ مختلف جماعتوں میں گئے، صرف تحریک انصاف کا نام ہی انہوں نے کیوں لیا، کیا وہ بڑی ہوشیاری سے یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ تحریک انصاف سے ہمارا اتحاد کچھ زیادہ فطری اور ضروری نہیں، بوقت ضرورت کسی اور کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ(ن) کے ساتھ۔
وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی خواہش کس کے دل میں نہیں مچل رہی۔ جہانگیر ترین نااہل نہ ہوتے تو ان کی پہلی نظر وزارتِ اعلیٰ پر تھی۔ شاہ محمود قریشی نے بھی صوبائی اسمبلی کا انتخاب اسی لئے لڑا تھا کہ پنجاب کی پگ اپنے سر پر رکھنا چاہتے تھے، مگر شکست کھا گئے۔ آج تک یہ سوال بھی لاینحل ہے کہ اگر وہ صوبائی اسمبلی کی نشست جیت بھی جاتے تو کیا وزیراعظم عمران خان انہیں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سونپتے؟ کپتان کی نفسیات کا اندازہ اب سب کو ہو جانا چاہیے۔ وہ کرکٹ ٹیم میں بھی کسی کی برابری برداشت نہیں کرتے تھے اور نہ حکومت میں کرتے ہیں۔ انہوں نے خیبرپختونخوا کی وزارتِ اعلیٰ پرویز خٹک کو اسی لئے نہیں دی کہ وہ من مانی کرنے لگے تھے۔ محمود خان کو ایک نیا وزیراعلیٰ چن کر میدان میں اتار دیا۔ پنجاب میں تو انہیں مضبوط وزیراعلیٰ چاہیے ہی نہیں، کیونکہ پنجاب کو وہ اپنی گرفت میں رکھنا چاہتے ہیں، اسی لئے انہوں نے ایک گمنام آدمی کو پسماندہ علاقے سے اٹھا کر پنجاب کا حکمران بنایا۔
دوسرے جسے بُری صورتِ حال کہتے ہیں، وہ کپتان کے نزدیک سب سے اچھی اور آئیڈیل ہے۔ عثمان بزدار خواب بھی عمران خان سے پوچھ کر دیکھتا ہے، یہ وہ خوبی ہے جو انہیں عمران خان کی نظر میں دوسروں سے افضل کرتی ہے۔ ایسے میں چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعظم وزیراعلیٰ پنجاب کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ جنہوں نے حالیہ دنوں میں یہ واضح تاثر چھوڑا ہے کہ وہ بوقتِ ضرورت کپتان سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں،مگر اس کے باوجود کوشش کرنے میں تو کوئی حرج نہیں، سو چودھری پرویز الٰہی ماحول سازگار بنانے کی کوشش کر رہے۔ ہیں لوگ لاٹری کا ٹکٹ اسی امید پر خریدتے ہیں کہ شائد ان کی نکل آئے، پرویز الٰہی کی لاٹری بھی نکل سکتی ہے اور اسی امید پر وہ زندہ ہیں۔