مسجد کے آئمہ و قراء کا مقام
بازار میں بہت زیادہ رش تھا اور جب انہوں نے مجھے دور سے دیکھا تو وہ قاری صاحب فوراً میری جانب لپکے اور قریب آکر بہت گرمجوشی سے معانقہ کیا ان کے ساتھ ان کی ایک چھوٹی بیٹی بھی تھی، لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ وہ بہت مرجھائے ہوئے ہیں اور شاید اندر سے تو مکمل ٹوٹ چکے ہیں میں نے احوال پوچھے تو بہت ہی محتاجی و منت والے لہجے میں شکستہ دلی کے ساتھ گویا ہوئے"حافظ صاحب! آپ ہی اب کچھ لکھیں!شاید کہ ان کا ضمیر جاگ جائے یا ان کو خیال آ جائے اس مہنگائی کے دور میں 4 ہزار سے کیا بنتا ہے؟میں نے ہاں میں ہاں ملائی اور سر جھکاتے ہوئے کہا کہ یہ تو ان کو خود بھی سوچ لینا چاہیے تھا انہوں نے پھر بتانا چاہا اور تاکید کرنا چاہی لیکن میں سمجھ رہا تھا اس چار ہزار میں ان کی چھٹی بھی بند ہوتی ہے ان کی خوشی و غمی میں شریک ہونے کی اجازت بھی بہت کم ملتی ہے، ان کو ایک منٹ تاخیر ہونے پر تلخ و ترش لہجہ بھی سننا پڑتا ہے، ان کے فیصلے بھی ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو صرف عید کے روز بمشکل مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور ستم بالائے ستم انتظامیہ کمیٹی کا سربراہ بھی وہی ہوتے ہیں وہ کیا جانیں جس ایک وقت کے چسکے کے لیے وہ چار ہزار لگا دیتے ہیں وہی امام مسجد چار ہزار میں مہینہ کیسے گزارتا ہوگا؟ یہی واقعہ چند ماہ قبل بھی میرے ساتھ پیش آیا کہ جب ایک حفظ کے مدرس قاری صاحب نے بہت ہی منت کے ساتھ ہاتھ جوڑ دیے اور کہنے لگے کہ ہمارے مہتمم صاحب کے پاس فلاں فلاں گاڑیاں اور اتنی جائیداد ہے لیکن مجھے نو ماہ ہوگئے تنخواہ کے لیے ان کے دفتر کے چکر لگاتے ہوئے وہ مجھے ہر مرتبہ وعدہ کرکے بھیج دیتے ہیں اور اب تو عرصہ تین ماہ سے تنخواہ بالکل نہیں ملی میری تین بچیاں اور دو بچے ہیں تین ماہ سے قرض لے لے کر تھک گیا ہوں یہ کڑوے و تلخ حقائق ضرور ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں قرآن کے قاری یا مسجد کے امام کا اب یہی مقام رہ گیا ہے
امامت کا فریضہ وہ مقدس عمل ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام زندگی اپنائے رکھا، یہی وہ مقدس شعبہ ہے جس کے متعلق شرح العمد میں امام ابن تیمیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے دریافت کیاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!مجھے کوئی کام بتائیں،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی قوم کے امام بن جاؤ تو انہوں نے کہا،اگریہ ممکن نہ ہوتو؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھرموذن بن جاو۔ایک موقع پر فرمایا: کہ امام اس لیے بنائے گئے ہیں کہ ان کی اقتداء کی جائے، یہی وہ آئمہ کرام ہیں کہ پہلے ادوار میں جن کے مشوروں سے ہی رعایا کام کیا کرتی تھی، اسی طرح ایک دوسری حدیث جسے امام ترمذیؒ نے نقل کیاہے، اس میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے:ایک وہ جس نے اللہ کے اور اپنے غلاموں کے حقوق ادا کیے ہوں گے، دوسرا وہ شخص جس نے لوگوں کی امامت کی اور اس کے مقتدی اس سے خوش رہے اور تیسرا وہ شخص جس نے روزانہ پانچ وقت لوگوں کو نماز کی دعوت دی یعنی جو اذان دیا کرتا تھا۔اس سے امامت جیسے شعبے کی اہمیت و مرتبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایسے ہی سنن ابوداؤد میں فرمایا گیا کہ اگر لوگوں کو پہلی صف میں نماز پڑھنے اور اذان دینے کی فضیلت کا علم ہوجائے تو قرعہ اندازی کی نوبت آجائے، اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طورپر امام اور موذن کے لیے رشد و مغفرت کی دعافرمائی ہے۔
اب جبکہ ایک طرف تو اس منصب کی اتنی اہمیت و افادیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے جبکہ دوسری جانب ہمارا من حیث القوم رویہ یہ ہے کہ ہم امام مسجد یا قاری قرآن کو معاشرے کا حقیر ترین فرد سمجھتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہیکہ جب مسجد کمیٹی کی سربراہی یا متولی ہونے کی بات آتی ہے تو ہم پیش پیش ہوتے ہیں اور ہمارے لیے امام کی چند ہزار تنخواہ دینے میں بھی گھٹن محسوس ہوتی ہے، ہم خود تو جو مرضی کرتے پھریں لیکن امام مسجد کے متعلق خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے فرشتہ ہونا چاہیے خدارا! مسجد کی کمیٹیوں کے سربراہ اور مہتمین سے گزارش ہے کہ ان آئمہ کے مناصب کو پہچانیں ان کے گھر کے حالات پر رحم کھائیں دوسری جانب ان آئمہ کرام اور قراء کرام سے گزارش ہے کہ تجارت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کی ہے اور تجارت سنت عمل ہے اول مقدم تو یہی ہے کہ ہمارا ذریعہ معاش ہونا چاہیے جو ہمیں محتاجی سے بچا سکے اور ہم خود کفیل ہوں اگر اس کا ذریعہ نہیں ہے تو اس مہتمم صاحب جو خود تو مہنگی ترین گاڑیوں میں گھومتے ہیں یا وہ کمیٹی سربراہ صاحب جس کی اپنی تنخواہ لاکھوں میں ہے اپنے اس رویہ پر غور کریں اور بروز قیامت رب العالمین کی سخت پکڑ سے بھی ڈریں۔