سی سی پی او لاہور بڑے خطرے کا شکار
جس طرح افواج پاکستان کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں، اسی طرح دوسرے ممالک میں ہمارے ملک کے پولیس افسران کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی مثال آئی جی پولیس پنجاب فیصل شاہکار کو یو این کمیشن میں ایک بڑے عہدے کے لیے مدعو کرنا محکمے اور ملک کے لیے کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ماسوائے پاک فوج کے دیگر ادارے بالخصوص پولیس سخت بحران کا شکار دکھائی دیتے ہیں درحقیقت پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت سرائیت کرچکی ہے۔ ممبران اسمبلی کا کیسز اور ٹرانسفر پوسٹنگ پر اثر انداز ہونا پولیس اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتی ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ اپنا ہر جائز و ناجائز کام کروانے کے لیے پولیس کو استعمال کرتی ہے۔وفاق اور صوبوں میں کشیدگی کے پیش نظرآجکل ہماری پنجاب پولیس سخت بحران کا شکارہے پنجاب حکومت کی ہر بات پر من و عن عمل نہ کرنے کی پاداش میں چیف سیکرٹری کے بعد آئی جی پولیس بھی رخصت پر جاچکے ہیں،اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جس طرح وفاق کی ہدایت پر چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس سے کام لینا چاہتے تھے یہ بات صوبائی حکومت کو منظور نہ ہونے کی پاداش میں دونوں افسران رخصت پر چلے گئے ہیں صوبائی حکومت اپنے اختیارات کا استمال عمل میں لاتے ہوئے جس طرح پنجاب پولیس کے افسران سے کام لینا چاہتی ہے اس سے وفاق کی جانب سے تعینات کیے جانے والے یہ آفیسرز ان کی ہر بات ماننے کو تیار نہ تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وفاق اور پنجاب میں سیاسی کشیدگی کے بڑھنے کے ساتھ ادارے بھی بری طرح اس کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔ جس کی واضح مثال لاہور پولیس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی غلام محمود ڈوگر کی تعیناتی وفاق اور صوبے میں متنازعہ حثیت اختیار کرچکی ہے،پنجاب حکومت کی جانب سے انہیں ریلیو نہ کرنے کی پاداش میں معطلی کی سزا سے دوچار ہونا پڑا۔ فیڈرل سروس ٹریبونل (ایف ایس ٹی) کی جانب سے فی الحال انہیں کام کرنے کی 22نومبر تک اجازت تو مل گئی ہے جوکہ ایک دن بعد یہ مدت ختم ہونے کو ہے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے پنجاب میں مذید رہنے کا فیصلہ ہونا اس تاریخ سے منسلک ہے جس کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن انہیں مذید مہلت دینے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہی اور وہ پوری کوشش کریں گے کہ 22نومبر کے بعد انہیں پنجاب میں مذید کام کرنے کی مہلت نہ دے پائیں دونوں طرف سے تیاری مکمل ہے اب دیکھنا ہے کہ قسمت کی دیوی کس پر مہربان ہوگی، دوسری جانب پنجاب حکومت نے انہیں عمران خان پر قاتلانہ حملے پر بننے والی جے آئی ٹی کا سربراہ بنا کر ان کے لیے مذید مسائل پیدا کردیے ہیں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ہیں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو اس کے بعد ریلیف ملنا اب تو بالکل ممکن دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ وفاق نے ان کی معطلی کے بعد اس ذمہ داری پربھی اعتراض کر رکھاہے، ایڈیشنل آئی جی غلام محمود ڈوگر نے اپنی ملازمت کو خطرے میں ڈال کر جس طرح صوبائی حکومت کا ساتھ دیاہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جبکہ صوبائی حکومت کا یہ عالم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے سی سی پی او غلام محمود ڈوگرکی معطلی کے فوراً بعد انہوں نے نئے سی سی پی او کے لیے انٹرویو بھی شروع کردیے تھے ہونا تو یہ چاہیے کہ پنجاب حکومت کو اگر سی سی پی او غلام محمود ڈوگرکی مذید خدمات درکار ہیں تو وہ خود ان کا کیس ہینڈل کرے اور ان کے خلاف ہونیوالی تمام کارروائیوں کا سلسلہ بند کروایا جائے، ایک جانب سی سی پی او لاہور شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب جے آئی ٹی کی ملنے والی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے وزیر آباد جائے وقوعہ کا معائنہ کرتے اور ٹیم میں موجود افسران سے میٹنگ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ایف ایس ٹی کی سر پر کھڑی تاریخ نے بھی یقیناً انہیں پریشان کررکھا ہوگا، ایک ایڈیشنل آئی جی عہدے کے آفیسر نے بتایا ہے کہ سی سی پی او لاہور نے مشکل وقت میں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے جو کرادار ادا کیا ہے یہ کردار ادا کرنا ہر آفیسر کے بس کی بات نہیں ہے غلام محمود ڈوگر نے اپنی ملازمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس طرح پنجاب حکومت سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے یہ کام کوئی بھی سرکار کا ملازم نہیں زاتی اور مخلص دوست ہی کرسکتا ہے،۔سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ملازم ہونے کی حثیت سے وہاں رپورٹ کرنے کو تیار تھے مگر پنجاب حکومت نے انہیں ریلیو کرنے سے انکار دیا جب صوبہ آپ کو ریلیو نہیں کرے گا تو ان حالات میں وہاں رپورٹ نہیں کی جاسکتی، دنیا بھر میں افواج پاکستان اور پولیس افسران کی تعریف کی وجہ ان کی پیشہ وارانہ مہارت ہے اگر ہم محکمہ پولیس سمیت دیگر اداروں میں ان کی سربلندی دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پاک فوج کی طرح ان اداروں سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کرنا ہو گا ۔خبر ہے کہ ڈی آئی جی آپریشنز افضال احمد کوثر نے آرگنائزڈ کرائم کے خاتمے کے لیے تمام ایس پی صاحبان کو ٹارگٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس علاقے میں بھی آرگنائزڈ کرائم میں ایس ایچ او ملوث پایا گیا ان کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی مذید یہ کہ ایس پی شمس الحق درانی کو لاہور میں بطور ایس پی سی آئی اے تعینات کرکے ان سے بہتر کارکردگی کی توقع کی گئی ہے ویسے تو وہ پہلے بھی لاہور میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن موجودہ سیٹ کے بڑے چیلنجز ہیں اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا وہ اس کے لیے خود کو اہل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ ش