دنیا پاکستان کی قدر کیوں نہیں کرتی ہے؟
مسئلہ کشمیر کی بات ہو یا ہماری وزارت خارجہ کا کوئی اور معاملہ، باہمی تجارت کی بات ہو یا دو طرفہ تعلقات دنیا ہمیں کیوں مقام نہیں دیتی؟
دنیا میں ہمارا مقام ہے نہ اعتبار، ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم اچھوت ہیں یا ہم کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں؟ باوجود اس کے کہ ہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اقوام متحدہ کے زیر انتظام امن مشن پر کام ہو تو ہماری فوج سر فہرست ہوتی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان نے بین الاقوامی برادری بالخصوص امریکہ کے لیے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جو جنگ لڑی ہے، ہزاروں جانوں کے نذرانے کے ساتھ ساتھ اس میں اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا ہے، جس کے ایک چوتھائی حصے کا بھی ازالہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ الٹا پاکستان پر کئی مزید پابندیاں لگائی گئیں۔ امریکہ اور مغرب کی سویت یونین کے ساتھ لڑی جانے والی سرد جنگ میں جب بھارت سویت یونین کے ساتھ کھڑا تھا پاکستان نے امریکی بلاک کے ساتھ بھر پور تعاون کیا اور 80ء کی دہائی میں لڑی جانے والی افغان سوویت جنگ پاکستان کے کاندھے پر رکھ کر لڑی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے ساتھ ساتھ پچیس لاکھ افغانیوں کی میزبانی بھی ملی جس سے ہماری معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ پڑا، لیکن بدلے میں ہمیں بین الاقوامی برادری کی بے وفائی اور افغانیوں کی نفرت ملی۔افغان مہاجرین کے لیے ہم نے کیا کچھ نہیں کیا پھر بھی وہ ہم سے نفرت اور بھارت سے محبت کا دم کیوں بھرتے ہیں؟ وہ افغان بچے جنہوں نے پاکستان سے کرکٹ سیکھ کر دنیا میں اپنا مقام بنایا وہی نوجوان اب کسی بھی ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کے سامنے بطور کھلاڑی نہیں بلکہ دشمن بن کر سامنے آتے ہیں اور افغان تماشائی گراؤنڈ کے اندر سرعام پاکستانیوں کے ساتھ اپنی دشمنی اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عوام ہمہ وقت مسلم امہ کا ورد کرتے اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے مسلمانوں کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ ان کی ہر تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر تڑپتے ہیں لیکن مسلم ممالک کی اکثریت پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتی ہے ہم نے آج تک اسرائیل کو اپنا دشمن بنا رکھا ہے اس کی وجہ صرف امت مسلم کا غم ہے، کیونکہ اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر زبردستی قبضہ کر کے فلسطینیوں پر مظالم روا رکھے ہیں۔ عراق پر مسلط کی گئی جنگ میں گو کہ ہمارے حکمران امریکہ کے ہاتھوں مجبور تھے مگر پاکستانی عوام نے کھل کر صدام کی حمایت کی اور اس کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے کیے، لیکن فلسطینیوں اور عراق نے ہمیشہ پاکستان کی نسبت بھارت کی طرف جھکاؤ رکھا ہے۔ راقم نے پاکستان کی طرف سے کیے گئے بین الاقوامی تعاون بیان کر دئیے آئیں اب اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاتے ہیں ہمارا اعتبار اس لیے نہیں کہ(1) ہمارے حکمران اور ان کے ہینڈلز دوہرا معیار رکھتے ہیں، اپنے عوام کے سامنے کچھ اور امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے پاس کچھ اور ہوتے ہیں. نیز ایسے جھوٹ بولتے ہیں جن کے پاؤں نہیں ہوتے، کارگل جنگ سے شمالی وزیرستان تک جو دنیا کہتی تھی ہم انکار کرتے رہے جبکہ بعد میں کارگل جنگ کے شہیدوں کو ایوارڈز دیکر اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر ہم نے دنیا کے موقف کو سچ ثابت کر دیا۔
2: ہمارے سول حکمرانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ میں اختیارات کی جنگ جس سے بین الاقوامی برادری کو کو کنفیوڑن رہتا ہے کہ انہوں نے بات کس سے کرنی ہے معاہدوں پر دستخط کون کرتا ہے ان کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ وزیراعظم کتنی مدت کے لیے منتخب ہوا لیکن اس کی اصل مدت وزارت کتنی ہے۔
3: تیسری اور سب سے بڑی وجہ پاکستانی اشرافیہ، فوجی اسٹیبلشمنٹ، سیاست دانوں، بیورو کریسی اور بالخصوص ہمارے سفارتکاروں کی ملکی مفاد میں دلچسپی سے زیادہ ذاتی مفادات میں دلچسپی ہونا ہے ان کے اس رویے کو دیکھ کر دوسرے ممالک کے حکمران اور بیوروکریٹ سمجھ جاتے ہیں کہ ان کی اپنے ملک سے کوئی دلچسپی ہے نہ مستقل کوئی خارجہ پالیسی ہے راقم نے ذاتی طور پر متعدد بار یورپی ممالک کے آفیشلز سے یہ سنا ہے کہ پاکستان سے آنے والے وفود یا شخصیات کے ساتھ سنجیدہ بات نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ یہاں صرف سیر کرنے اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے آتے ہیں اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک کے اندر ہمارے سفارتی مشنز میں شامل افسر معمولی فائدے کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں. حال ہی میں جاپان میں گرفتار ہونے والی پاکستان وزارت خارجہ کی خاتون افسر اس کی زندہ مثال ہے۔اسی طرح پی آئی اے کے عملے کی غیرقانونی سرگرمیوں کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔
چوتھی وجہ پاکستانی عوام اور حکمران طبقے کی سوچ اور بیانیے میں فرق ہے ہمارے حکمران شروع سے امریکی لائن پر چلتے ہیں بلکہ غلامی کی حد تک امریکی حکم بجا لاتے ہیں. جبکہ عوام کے اندر امریکہ مخالف جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں کیونکہ عوام کے اندر بیانیے بنانے والوں نے ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دی ہے جہاں تک اسلامی ممالک بالخصوص افغانستان کی بات ہے. اس میں بھی ہماری اشرافیہ کے رویوں کی وجہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے افغانوں کو پناہ دی مگر ان کے ساتھ درست تعلق قائم کرنے کی بجائے ان کو حقارت سے دیکھا، اس سے پہلے بنگالیوں کے ساتھ روا رکھے گئے رویوں نے پاکستان توڑا تھا اور اب بھی ہم نے اپنے ملک کے مختلف علاقائی گروہوں میں نفرت پیدا کر رکھی ہے۔
اگر ہم بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی توقیر کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں فرد سے ریاست تک اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہمارے حکمران طبقے کو سب سے پہلے اپنے عوام سے سچ بولنا ہوگا اور پھر دنیا کو بھی اپنی سچائی کا اعتبار دلانے کے لیے دوہرے معیار کو ختم کرنا ہوگا. سفارت کاروں کی تعیناتیاں سفارشوں اور رشوت سے نہیں بلکہ قومی جذبے کی بنیاد پر کرنا ہوں گی اور ان کی تربیت کا معیاری انتظام کرنا پڑے گا۔ اس خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ بھارتی سفارتکار قومی جذبے سے سرشار اور انتہائی قابل ہوتے ہیں جبکہ پاکستانی سفارت خانوں میں بیٹھے لوگ اپنے مفادات کے اسیر اور نااہل ہوتے ہیں۔