چیف جسٹس کی صوابدید اور سودی معرکہ

  چیف جسٹس کی صوابدید اور سودی معرکہ
  چیف جسٹس کی صوابدید اور سودی معرکہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 سماجی رابطے پر ایک صاحب نے سوال کیا:" سپریم کورٹ میں حالیہ اضافوں کے بعد اب چیف جسٹس والے بینچ میں اور کون جج ہوں گے"؟ ایک غیر متعلقہ معمولی پڑھے لکھے شخص نے جن ججوں پر مبنی بنچ کی پیش گوئی کی، چند دن بعد بینچ انہی معززین پر مشتمل تھا۔ ادھر الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹوں میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات پر امتناع جاری کیے تو کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل کردی۔ چیف جسٹس نے اپنی صوابدید پر  یہ فیصلہ کیا کہ اس اپیل کی سماعت وہی نیا بینچ کرے گا۔اب ہمارے اس "نجومی" نے پیشگوئی یوں کی: "آپ چاہیں تو میں ممکنہ نہیں، یقینی اور لفافہ بند فیصلہ آپ کو لکھ دیتا ہوں. فیصلہ وہی ہو گا جو میں نے لکھا ہوگا"۔
.دن بھر کی مصروفیت کے بعد معزز ججوں کو خانگی زندگی کے ساتھ ساتھ رات کو بے پناہ مطالعہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کاش ہمارے یہ معززین وقت نکال کر فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر جدید ذرائع ابلاغ پر نظر ڈال کر لیا کریں، انہیں اندازہ ہو گا دوران سماعت ججوں کے بولتے رہنے اور یکساں نوعیت کے یک رخے سیاسی فیصلوں کے سبب بیشتر معمولی پڑھے لکھے افراد بھی ججوں کا ذہن پڑھ کر ان کے بارے میں درست رائے قائم کر لیتے ہیں۔ ان نئے وسائل ابلاغ پر جس ”بلیغ“ انداز میں جسٹس منیر تا جسٹس ثاقب نثار اور بعض دیگر ججوں کا نوحہ پڑھا جاتا ہے، میر ببر علی انیس یہاں آپ کو طفل مکتب نظر آئیں گے۔
جن ”لوگوں“ نے گزشتہ 75 سال سے جمہوریت کو بچہ جمہورا بناکر پارلیمان اور وزیراعظم کو مواقع کی مناسبت سے بے توقیر کر رکھا تھا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ان میں سے ایک ادارے کا ایک نمائندہ مجاز اور ایک انتہائی بااختیار افسر پریس کانفرنس میں بیٹھ کر دونوں کھلے بندوں یوں اعتراف کر چکے ہیں: "ہم سے غلطیاں ہوئی ہوں گی". اور ان کے سربراہ کا یہ مختصر اعترافی جملہ کیا کافی نہیں ہے؟: "فوج 'اب' سیاست میں حصہ نہیں لے گی"۔ اسی حساس ادارے کے سربراہ اپنی اسی پریس کانفرنس میں اعلان کر چکے ہیں کہ "سیاسی امور سے لاتعلق رہنے کا فیصلہ پورے ادارے کا فیصلہ ہے"۔ گویا اب یہ ادارہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کی آئین شکنیوں سے لاتعلق ہے۔
 دوسرے ادارے کا معاملہ ذرا توجہ طلب ہے۔ عدلیہ کے کئی معزز جج صاحبان بدقسمتی سے آج بھی جسٹس منیر اور ثاقب نثار کے ظلمات راہ سے مستفید ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ گفتگو آئندہ کبھی سہی۔ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات پر قانون سازی نہ ہونے کے سبب جسٹس منیر کی (بد)روح آج بھی  سایہ فگن ہے۔ اب اگر چیف جسٹس اللہ والا ہو تو وہ اپنی صوابدید احساس جواب دہی کے ساتھ استعمال کرے گا۔ لیکن عدلیہ پر جنرل پرویز مشرف نے جو کلہاڑا چلایا تھا، اس کے زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکے۔ رہی سہی کسر انیسویں دستوری ترمیم سے پوری ہو گئی۔ جوڈیشل کمیشن کے سامنے نام رکھنے کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان ہی کو اختیار حاصل ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے اسی اپریل میں سود کی تمام شکلوں کو مکرر خلاف قرآن و سنت قرار دیا۔ یہ معاملہ عدالتوں میں تین عشروں سے اٹکا ہوا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر یہی کہنا کافی ہے کہ اس آخری فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد اپیلیں دائر ہو چکی ہیں۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ نے حکومتی اپیل واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے لیکن مسلم کمرشل بینک اور یونائیٹڈ بینک بھی اس مقدمے کے فریق ہیں جن کی اپیل برقرار ہے۔ اصول یہ ہے کہ فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ معطل اور مقدمے کی سماعت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ پر مبنی اس اپیل کی سماعت کے لیے شریعت اپیلٹ بینچ تشکیل ہی نہیں دیا گیا۔ تاہم اس ایک اپیل کا مذکور ہی کیا، دو سال ہونے کو ہیں، کسی محترم چیف جسٹس نے شریعت اپیلٹ بینچ کے عدم وجود کا نوٹس نہیں لیا۔
سود پر عدالت کا ریمانڈ کردہ فیصلہ وفاقی شرعی عدالت میں 21 سال زیر سماعت رہا۔ اس طویل مدت کے بعد دیے گئے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پھر اپیل کر دی گئی ہے۔ کوئی بات نہیں، یہ قانونی عمل ہے جس کا جواز موجود ہے۔لیکن چاہیے تو یہ تھا کہ اس اپیل کے ساتھ ہی  عمران خان کی اپیلوں کی طرح محترم چیف جسٹس معدوم شریعت اپیلٹ بینچ کو زندہ کر کے فوراً سماعت شروع کرا دیتے۔ بینچ کی تشکیل چیف کی صوابدید ہے۔  محترم چیف جسٹس کے یہ صوابدیدی اختیارات نہایت مستحکم ہیں۔ یہاں ناظرین کو سورہ بقرہ کی آیت 279 یاد دلانا شاید مفید ہو، جس میں سودی معاملے پر اللہ اور اللہ کے رسول کا اعلان جنگ ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور تمہارا جو سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو……۔۔اگر تم نے ایسا نہ کیا تو جان لو، یہ اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے“۔
یہ آیت حدیث کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے دینے والوں، گواہوں اور معاہدہ سود کی کتابت کرنے والوں پر لعنت فرمائی، فرمایا یہ سب لوگ اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ سود نے تو ختم ہونا ہی ہونا ہے۔ آج نہ سہی، دس سال بعد سہی کہ یہ آئینی تقاضا ہے۔ تو محترم چیف جسٹس بندیال صاحب! اللہ کی طرف سے انعام یا آزمائش کی صورت میں آئے اس موقع پر شریعت اپیلیٹ بینچ کا آپ خود حصہ بن  کرکیوں نہ تاریخ میں خود کو امر کر لیں؟
٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -