کچھ جاپان اور جاپانی قوم کے بارے میں
جاپان ایک عجیب و غریب ملک ہے اور جاپانی قوم بھی دنیا کی ایک عجیب و غریب تر قوم ہے۔جاپان میں کسی بھی قسم کی معدنیات اس کی زمین کے اوپر موجود نہیں اور نہ ہی اس کے اندر دفن ہیں۔ سب کچھ باہر کے ممالک سے خریدا اور منگوایا جاتا ہے۔جاپانی قوم کی ترقی کا دارو مدار صرف اور صرف اس کی آبادی کی ذہنی اور دماغی صلاحیتوں اور اختراعات پر انحصار رکھتا ہے۔جاپانی ایک شدید ”شاہ پرست“ قوم ہے۔ وہ اپنے بادشاہ کو تقریباً خدا کا مقام دیتی ہے۔
اس قوم کا جنگی ماضی حیران کن ہے۔ اس نے 1904-05ء میں روس کو شکست دی جو اس کا قریبی ہمسایہ ہے اور ایک بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا۔1930ء کے عشرے میں چین کے غالب حصے پر قبضہ کیا۔دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ جب 1941ء میں بحیرہئ جاپان سے نکلی تو سارے بحرالکاہل میں جزائر پر قبضہ کرتی ہوئی آسٹریلیا تک جا پہنچی۔مشرقِ بعید کے سارے ممالک پر تسلط قائم کیا اور برما (اب میانمر) پر قبضہ کر لیا۔یہ تو انڈیا کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بچ گیا وگرنہ جاپانی سپاہ کلکتہ اور چٹاگانگ تک آن پہنچی تھی۔جاپانی سپاہی کی سپاہ گری کا ایک زمانہ معترف ہے۔ جاپان نے تین سال تک برما پر قبضہ برقرار رکھا۔ یکم مئی 1945ء کو جب ہٹلر کی خود کشی کے بعد جرمنی نے ہتھیار ڈالے تو جاپان تن تنہا اتحادیوں کے خلاف ڈٹا رہا اور ان کو ناکوں چنے چبوائے۔
جاپانیوں کا عسکری ماضی بھی نہایت عجیب ہے۔جاپانی سپاہی، چنگیز اور ہلاکو سے بھی زیادہ ظالم اور سنگدل تھا اور آئندہ بھی ہو گا۔ جاپان نے اپنی زمینی، بحری اور فضائی قوت میں جو ترقی کی وہ بھی از بس حیرت انگیز ہے۔ وہ تو دنیا کی قسمت اچھی تھی کہ جولائی 1945ء میں امریکہ نے ایٹم بم بنا لیا۔اگر اگست1945ء میں امریکہ، جاپان پر ایٹمی حملہ نہ کرتا تو جاپانی فوج کبھی ہتھیار نہ ڈالتی!
جاپانی ملٹری ہسٹری کا مطالعہ ازحد سبق آموز ہے۔جوہری حملے کے بعد امریکہ نے اس قوم کو مجہولی راہوں پر ڈالنے کی کوشش کی اور جنرل ڈگلس نے اس کا آئین تک تبدیل اور ”بے طاقت“ کر دیا۔لیکن اس قوم نے دفاعی ہتھیاروں کی پروڈکشن بند کر کے غیر دفاعی آلات کی پیداوار میں کمال کا مظاہرہ کیا۔آج جاپان کا شمار دنیا کی ترقی یافتہ اور امیر ترین اقوام میں ہوتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کو77 برس ہو چکے (1945ء سے2022ء تک)۔اس طویل مدت میں جاپان کی سیکیورٹی کا انحصار امریکہ پر رہا۔امریکہ نے جاپان سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ اگر اس پر کسی بیرونی ملک نے حملہ کیا تو وہ اس کی مدد کو آئے گا۔اِس وقت جاپان میں مقیم امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً50ہزار ہے جن کا ہیڈ کوارٹر یوکوٹو(Yokoto) ایئر بیس میں ہے جو ٹوکیو شہر کے مغرب میں واقع ہے۔اپنے ملک سے باہر امریکہ نے جو ٹروپس صف بند کر رکھے ہیں یہ تعداد ان میں سب سے زیادہ ہے۔ظاہر ہے ان کا خرچہ جاپانی حکومت برداشت کرتی ہے۔یہ50ہزار امریکی ٹروپس، سال بھر جاپانی فورسز کے ساتھ مل کر جنگی مشقیں کرتے رہتے ہیں۔امریکہ کا سب سے بڑا اور جدید ترین فضائی جنگی جہاز F-35 سٹیلتھ فائٹر جیٹ کہلاتا ہے۔یہ بڑا مہنگا طیارہ ہے اور دنیا کے مختلف ممالک نے اس کو خرید رکھا ہے لیکن ان طیاروں کی سب سے بڑی تعداد جاپان نے خرید کی ہے۔
جب سے روس نے یوکرائن پر حملہ کیا ہے اور امریکہ اور ناٹو کی افواج مل کر بھی یوکرائن کی مدد نہیں کر سکیں،تب سے جاپانی ہائی کمانڈ میں یہ اضطراب بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ اگر روس کے سامنے امریکہ اور ناٹو فورسز بے بس ہیں اور وہ یوکرائن کی زمینی اور فضائی حدود کراس نہیں کر سکتیں تو یہی حال کل کلاں جاپان کا بھی ہو سکتا ہے۔روس اور چین، جاپان کے ہمسائے اور اس کے حریف بھی ہیں۔جوہری حملے کی دھمکی دے کر اگر روس یا چین، جاپان کے کسی جزیرے پر چڑھ دوڑتے ہیں تو اس کا انجام بھی یوکرائن جیسا ہو سکتا ہے۔روس اور چین کے علاوہ شمالی کوریا کی طرف سے حملے کا خطرہ بھی جاپان کے سر پر منڈلانے لگا ہے۔روس، چین اور شمالی کوریا اگر مل کر جاپان کے کسی علاقے کو روندنے کا پلان بناتے ہیں تو جاپان کیا کرے گا اور کس کی طرف دیکھے گا؟ اس خطرے کے پیش ِ نظر جاپان نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ امریکہ پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی سلامتی کا خود بندوبست کرے گا۔…… اگر ایسا ہوا تو ایشیا میں عالمی توازنِ قوت تبدیل ہو سکتا ہے!
جاپان کا آئین جو امریکی جنرل ڈگلس آرتھر نے بنایا تھا وہ اسے جارحانہ ہتھیاروں کی خانہ ساز پروڈکشن کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اب جاپان کی پارلیمنٹ اور اس کا فوجی ہیڈ کوارٹر اس امر پر سوچ بچار کر رہا ہے کہ ملک کے دفاعی بجٹ میں ایک ”انقلابی اضافہ“ کر دیا جائے اور اندرونِ ملک بھاری جنگی ہتھیاروں کی مینو فیکچرنگ شروع کر دی جائے۔
جاپان، معاشی اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ وہ اگر چاہے تو امریکہ کی دفاعی چھتری سے باہر نکل کر ایک خود مختار اور دنیا کے دوسرے آزاد ممالک کی طرح عسکری امور میں امریکہ کی برابری کا دعویدار بن سکتا ہے۔خود امریکہ میں بھی بعض دانشور اور تھنک ٹینک یہ دلیل لاتے ہیں کہ اگر جاپان، عسکری لحاظ سے امریکی چھتری سے باہر نکل کر ایک آزاد ملک بن جائے تو وہ چین کا مقابلہ کرنے کی ایک بہتر آپشن ہو گی۔حالیہ ایام میں چین نے تائیوان کا چوطرفہ محاصرہ کر لیا تھا۔ وہ اگر چاہے تو ان پانیوں میں اپنے بحری جنگی جہاز بھیج سکتا ہے جو جاپانی بحیرے(Sea)کہلاتے ہیں۔ان جنگی جہازوں میں بلاسٹک میزائل بھی نصب کئے جا سکتے ہیں جو جاپانی جزائر پر جب چاہیں جارحانہ حملوں کی یلغار اور بوچھاڑ کر سکتے ہیں۔
بظاہر یہ بات آسان لگتی ہے کہ جاپان اپنی خانہ ساز عسکری قوت کے طفیل امریکی عسکری امداد سے بے نیاز ہو جائے۔ لیکن اس راستے میں بہت سی دشواریاں حائل ہیں …… پہلی دشواری یہ ہے کہ کیا امریکہ،جاپان کو وہ ٹیکنالوجی دے سکے گا جس پر اس کے ہائی ٹیک عسکری ہتھیاروں کا دارو مدار بلکہ اجارہ داری ہے۔ظاہر ہے وہ ایسا نہیں کرے گا اور جاپان کو ہمیشہ اپنا محتاج رکھنا چاہے گا۔اس کا توڑ جاپان نے کئی برس پہلے یہ نکالا تھا کہ اس نے اپنا ایک جدید لڑاکا جیٹ طیارہ بنانا شروع کر دیا تھا۔یہ پراجیکٹ اب کافی آگے بڑھ چکا ہے اور اب جاپان ہائپر سانک میزائل پروڈیوس کرنے کی طرف پیش رفت کر رہا ہے۔ہائپر سانک سپیڈ،آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز ہوتی ہے۔لیکن اس کے لئے جو سرمایہ اور انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے اس کی تعمیر سے جاپان ابھی بہت دور ہے۔
جاپان کی برسر اقتدار ”لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی“ کی تجویز یہ ہے کہ وہ آئندہ پانچ برسوں میں اپنی آمدنی کا 2 فیصد دفاع پر خرچ کرے گی۔…… آج کل وہ ایک فیصد خرچ کر رہی ہے…… امریکہ،یورپی یونین کے ممالک سے بھی یہی امید رکھتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا 2فیصد بجٹ، دفاع پر خرچ کریں۔ جاپانی وزیراعظم کیشیدہ (Kishida) اگلے پارلیمانی اجلاس میں یہ تجویز رکھیں گے کہ آیا دفاعی بجٹ میں 100% اضافہ کر دیا جائے یا اسے جوں کا توں رکھا جائے۔جاپانی عوام فی الحال کیشیدہ کی اس تجویز کی حمایت کرتے نظر نہیں آتے۔
جاپانی محکمہ دفاع کے آفیسرز اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جاپان کو امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کا بنایا ہوا اسلحہ خریدنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔(جاپان میں کرپشن عام ہے اور شاید عسکری سازو سامان کی خریداری کا سلسلہ جاری رکھنے میں یہی پہلو پیش پیش ہو)۔جاپانی اشرافیہ کے علی الرغم جاپانی عوام کا خیال ہے کہ جاپان کو بھاری اور پیچیدہ اسلحہ جات کو اپنے ہاں مینو فیکچر کرنے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک ہائی ٹیک ہتھیاروں کے اہم اور نازک پرزہ جات فراہم کرنے میں دیر لگاتے اور کتراتے ہیں۔ دوسرے امریکی اسلحہ جات کی تکنیکی برقراری (Maintenance) کے لئے جو امریکی ماہرین جاپان آتے ہیں وہ اپنا فن جاپانیوں کو منتقل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔امریکی اسلحہ ساز ادارے کلاسیفائڈ ملٹری ٹیکنالوجی کو لاک ڈاؤن کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔…… برسبیلِ تذکرہ ان جاپانی بندگانِ خدا سے کوئی یہ بھی تو پوچھے کہ یہ اپنی سول ٹیکنالوجی کے اسرار و رموز ہم جیسے پاکستانی خریداروں کو منتقل کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ملک جس کے پاس کوئی سی بھی ہائی ٹیکنالوجی ہو وہ اسے کسی بھی دوسرے ملک کو دے کر اپنے ہاتھ نہیں کٹوا سکتا!…… جاپانی کاروں کو ہی لے لیجئے…… اس کے نازک اور پیچیدہ پرزہ جات کی ٹیکنالوجی ہم ایک عرصے سے مانگ رہے ہیں لیکن جاپانی کار ساز کمپنیاں اور کارخانے ایسا کرنے سے ہچکچاتے نہیں،انکار کرتے ہیں!چنانچہ مولانا حالی کی زبان میں سٹوری کا مارل یہ ہے کہ:
جہاں میں حالی کسی پہ اپنے سوا بھروسہ نہ کیجئے گا
یہ راز ہے اپنی زندگی کا، بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا