غیر ذمہ دارانہ بیانات مشکل میں اضافہ ہی کریں گے

غیر ذمہ دارانہ بیانات مشکل میں اضافہ ہی کریں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے سیاسی مقاصد کے لیے ملکی معیشت کے بارے میں بے بنیاد اورغیرذمہ دارانہ بیانات اورافواہوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں میں کبھی ڈیفالٹ کیا ہے اورنہ ہی کبھی ایسا ہو گا، ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈز سمیت تمام ادائیگیاں بغیر کسی تاخیر وقت پرکر دی جائیں گی۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے آئندہ ایک سال کے لیے تمام بین الاقوامی ادائیگیوں کا انتظام کر رکھا ہے، ملکی ضرورت اورطلب کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کے ذخائر بھی موجود ہیں، حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ ہدف سے کم رہنے کی توقع ہے،اِس پر کسی قسم کی پریشانی کی ضرورت نہیں، شہری افواہوں پرکان نہ دھریں۔ اپنے ویڈیو پیغام میں وزیرخزانہ نے کہا  کہ گزشتہ چند دِنوں سے سیاسی مقاصد کے لیے سوشل میڈیا اورمختلف ذرائع کے ذریعے پھیلائی جانے والی ملکی معیشت کے بارے میں بے بنیاد اورغیرذمہ دارانہ افواہوں سے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرونی ممالک میں بھی پاکستان کی معیشت، معاشی مفادات اور تعلقات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں،اِن افواہوں سے ملک کے دو طرفہ اورکثیرالجہتی شراکت داروں سے معاملات اور لین دین پر اثر پڑتا ہے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کے ”کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ“ پر بے بنیاد افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ سے متعلق اُن کا اپنا فارمولا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ٹوئٹر پر18 نومبر کو ”کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ رِسک“ سے متعلق ایک گراف شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا امکان 75 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں اِسے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ قرار دیا لیکن وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ ملکی ڈیفالٹ ماپنے کا پیمانہ ہی نہیں ہے۔ عام الفاظ میں ”کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ رِسک“ سے مراد کسی ملک کی واجب الادا رقوم کی بروقت ادائیگیوں کی صلاحیت ہے یعنی کوئی بھی ملک کتنی آسانی سے واجب الادا اندرونی اور بیرونی ادائیگیاں کر سکتا ہے۔ ہرملک کے پاس اِن معاملات سے نمٹنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں، بہت سے اور مختلف طریقوں سے بروقت ادائیگیوں کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اِس وقت آئی ایم ایف پروگرام میں ہے جو بطور بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اِس بات کو ہر طور یقینی بنائے گا کہ پاکستانی معیشت کسی طور دیوالیہ نہ ہو، چاہے اِس کے لیے پاکستان کو کتنے ہی مشکل فیصلے کیوں نہ کرنے پڑیں۔ آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام اور اِس کے نتیجے میں کیے جانے والے مشکل فیصلے کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں ہیں، صرف آئی ایم ایف ہی نہیں، کسی بھی دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے اب تک پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکان کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ 
سیاست دانوں کی سیاست اپنی جگہ اور مفادات کی لڑائی اپنی جگہ لیکن اتنی ذمہ داری کا مظاہرہ تو اِنہیں کرنا چاہئے کہ کوئی بھی ایسے اعداد و شمار شیئر نہ کیے جائیں جس سے ملکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ معیشت کے بارے میں افواہیں اور غیر ذمہ دارانہ بیانات عوام کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں اور ماحول خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں لیکن ہمارے اہل ِ سیاست اِس بات پر غور کرنا گوارا نہیں کرتے، معمولی سے وقتی سیاسی فائدے کے لیے بے سروپا گفتگو کرنا عام رویہ بن چکا ہے۔ سیاست دان ایک دعویٰ کرتے ہیں اور تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد اِس کی نفی کر دیتے ہیں،جس بنیاد پر بیانیہ بناتے ہیں، اُسی  بنیاد کو خود اپنے ہاتھوں  سے ہی ہلا دیتے ہیں۔ پہلے عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل بھی تھا لیکن اب ہفتے کو لانگ مارچ کے شرکا ء سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے تسلیم کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تو نہیں تھا لیکن یہ شکوہ ضرور کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اِس عمل کو روکا بھی نہیں، حالانکہ تحریک عدم اعتماد آئینی طریقے سے اسمبلی میں لائی گئی اور منظور ہو گئی، دنیا بھر میں یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، یورپ سے امریکہ تک اور افریقہ سے ایشیا ء تک، جہاں کہیں بھی جمہوریت ہے وہاں اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ برطانیہ جس کی مثالیں عمران خان دیتے نہیں تھکتے، وہاں کے سیاسی حالات دیکھ لیں، 2019ء  کے انتخابات سے لیکر اب تک صرف چار سال کے دوران  بورس جانسن اور لِزٹرس کے بعد رِشی سونک تیسرے وزیراعظم کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کی حکومت بھی دوسری سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے ہی قائم ہوئی تھی اور اِس کا خاتمہ بھی اِنہیں جماعتوں کی بدولت ممکن ہوا۔ اب وہ جو بھی شکوہ کریں اور جس سے بھی کریں، اِس کی کوئی آئینی حیثیت اور توجیہہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کی کال بھی دے رکھی ہے، مختلف حلقوں سے آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ یہ سب آرمی چیف کی تعیناتی سے مشروط ہے لیکن تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے اِس گمان کو مسترد کر دیا کیونکہ اُن کے خیال میں اُن کے راولپنڈی پہنچنے سے پہلے تعیناتی کے لیے درکار عمل پورا ہو چکا ہو گا۔
ابھی تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور صدرِ پاکستان عارف علوی کی ملاقات سے امید کے دیئے کی لو جلنا ہی شروع ہوئی تھی کہ عمران خان نے راولپنڈی پہنچنے کی تاریخ دے دی اور ساتھ ہی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صدرِ پاکستان کو آرمی چیف کی تعیناتی پر کسی قسم کی گڑبڑ سے باز رہنے کی بات کر دی، ساتھ ہی اُنہوں نے عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لے لیا۔ عام طور پر تو بلاول بھٹو احتیاط سے گفتگو کرتے ہیں لیکن لگتا ہے اب اُن کے جذبات بھی قابو سے باہر ہو رہے ہیں، اُن کی گفتگو پسندیدہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ موجودہ حالات میں سب کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ یہ وقت جذبات سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینے کا ہے، معمولی سی غلطی بھی بھاری پڑ سکتی ہے۔ اگر کہیں نہ کہیں بات چیت کا عمل شروع ہوا تھا تو اُسے آگے بڑھائیں نہ کہ اِس میں رکاوٹ ڈالیں۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، ملک کو صحیح ڈگر پر چلانے کے  لیے حکومت، حزبِ اختلاف اور تمام اداروں کا ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ جلد یا بدیر انتخابات تو آخر ہونے ہی ہیں پھر عوام جس کے بھی حق میں فیصلہ دیں گے تاج اُسی کے سر سجے گا۔ جھوٹی سچی باتیں سوشل میڈیا کی زینت بنانے سے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، ایسے میں تمام ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ تمام تر دیانتداری اور ذمہ داری سے اپنے اپنے فرائض نبھائیں، غیر ضروری بیانات سے پرہیز کریں، قول و فعل کے تضاد سے دور رہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -