”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“

مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:57
صدیق سالک کی کتاب ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کا موضوع سقوط ِ ڈھاکہ کی تاریخ ہے۔ اس کتاب کو ”سوانحی ادب“ کے ذیل میں شامل کرنے کی وجہ اس کا اندازِ نگارش ہے جس میں ہر شخصیت ‘ ہر واقعے‘ ہرمنظر اور ہر تجزیئے کے پیچھے مصنف کی ذات موجود ہے سالک نے مختلف واقعات اور شخصیات کی رائے اکٹھی کر کے نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے اپنے دل‘ دماغ اور آنکھوں پر بھروسہ کیا ہے اس میں حالات وواقعات کے ساتھ ان کے جذبات و خیالات بھی موجود ہیں‘ مشرقی پاکستان کی دگرگوں سیاسی فضا سے لے کر خانہ جنگی اور پھر جنگ کی ہولناکیوں کو انہوں نے چشم و دل سے محسوس کیا ہے اس لیے تاریخ کے اس بیان میں ان کی ذات ہر جگہ شا مل رہی ہے اسی بناءپر اسے ”سوانحی ادب“ کے ذیل میںرکھا گیا ہے نیز کتاب کے عنوان میں ”میَں“ کا لفظ بھی اس رائے کی تائید کرتا ہے کہ اس میں واحد متکلم کی ذات شامل ہے۔
کتاب کے دیباچے میں سالک نے اس کتاب کوادب سے دور اور تاریخ سے قریب رکھنے کی کوشش کا جو دعویٰ کیا ہے اس کا فیصلہ کتاب کے مکمل تجزیئے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔
کتاب کو 3حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1:سیاسی افق
2:خانہ جنگی
3:جنگ
سیاسی اُفق:
سیاسی افق کی حد تک جائزہ لیں تو سالک نے مشرقی پاکستان کے احساس محرومی کو جائزقرار دیتے ہوئے وہاں کی غربت کی بڑی تلخ عکاسی کی ہے کسی خاص علاقے میں زیادہ غربت ہونا کوئی تعجب انگیزبات نہیں لیکن سالک مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کی مفلوک الحالی پر خود کو مجرم محسوس کر تے ہیں۔
”میں نے محسوس کیا کہ بنگال کا عام آدمی مغربی پاکستان کے انتہائی غریب آدمی سے بھی غریب تر ہے مجھے مشرقی پاکستان کی معاشی بدحالی کے بارے میں سنی ہوئی باتوں میں وزن نظر آنے لگا میں اپنے آپ کو مجرم محسوس کرنے لگا۔“
معاشی تفاوت کے علاوہ سالک نے مشرقی اور مغربی پاکستانیوں کے آپس کے تعلقات میں بھی بہت فاصلہ محسوس کیا ان کے مطابق ان کا رویہ بالترتیب محکمومانہ اور حاکمانہ تھا۔ خصوصاً سرکاری اہلکاروں کا رویہ عام بنگالیوں سے نفرت ‘ نخوت اور اہانت کا تھا۔ لکھتے ہیں:
”میں نے اپنا ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈالا اور چند سکے اس غریب لڑکے کو دینا چاہے مگر حوالدار نے پرزور لہجے میں کہا ” سر! ان حرامزادوں کی عادت نہ بگاڑیئے۔“( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )