امریکی خارجہ امور کمیٹی کی رپورٹ
امریکہ کی ہاؤس کمیٹی برائے خارجہ امور کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان حکومت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مسلح کررہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان سے انخلاء کے بعد چھوڑے گئے امریکی ہتھیار امارت اسلامیہ (طالبان حکومت)کی نگرانی میں آ گئے جس کے بعد یہ جدید ہتھیار پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تک پہنچ گئے۔ رپورٹ کے مطابق اِن ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو عسکری طورپر مضبوط کیا۔امریکی امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ افغان انتظامیہ پاکستان مخالف گروہوں کو مسلح کرنے میں پوری طرح ملوث ہے۔ یاد رہے کہ 30اگست 2021ء میں پیش کی گئی پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں اِس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ امریکی انخلاء کے بعد لگ بھگ سات ارب ڈالر سے مالیت کا اسلحہ افغانستان میں رہ گیا تھا جبکہ امریکہ نے افغان فوج کوچارلاکھ سے زائد ہتھیار فراہم کئے تھے جن میں سے تین لاکھ کے قریب انخلاء کے وقت افغانستان میں ہی رہ گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان انتظامیہ کی کھلی چھوٹ کے باعث ٹی ٹی پی کو ملنے والے ہتھیاروں میں جدید امریکی ہتھیار شامل ہیں۔ اگست 2022ء میں ٹی ٹی پی کی جانب سے نشر کی جانے والی ایک ویڈیو میں بھی یہ اسلحہ دیکھا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اِن ہتھیاروں کے استعمال سے ٹی ٹی پی نے لکی مروت، پشاور، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ملک کے کئی شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال 2022ء میں اِن کارروائیوں میں مجموعی طور پر 118پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں جبکہ یہ سلسلہ تاحال نہ صرف جاری ہے بلکہ اِن واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو سال قبل کابل میں ہونے والے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات محض ڈھونگ تھے اور اِن مذاکرات میں عملی طور ٹی ٹی پی کے لوگوں نے حصہ لیا تھا اب یہ فیصلہ افغان حکومت نے کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے یا اِنہیں پاکستان کے حوالے کرنا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغان حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ٹی ٹی پی والے کہاں سے حملہ کررہے ہیں،وہ وسطی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغانستان ہی میں موجود ہیں اور یہ بات پاکستان لئے قابلِ قبول نہیں کہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور طالبان تماشہ دیکھتے رہیں۔
امریکہ کی خارجہ کمیٹی میں پیش کی جانے والی رپورٹ اِس لئے چشم کشا ہے کہ پاکستان ایک عرصے سے یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے پاس جدید ترین امریکی اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟میانوالی ائر بیس پر مارے جانے والے دہشت گردوں کے پاس جدید امریکی ہتھیاروں نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ سال ملک کے تین صوبوں کی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیاتو اِنہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا،کچے کے یہ ڈاکو جدید امریکی اسلحے سے لیس ہونے کی وجہ سے سکیورٹی اداروں کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہے، سندھ حکومت نے اِنہی حالات کے پیش نظر اربوں روپے مالیت کا جدید اسلحہ خریدا اور اب ایک بار پھر سندھ اور پنجاب کی نگران حکومتیں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن شروع کرنے جا رہی ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق ٹی ٹی پی، بلوچ علیحدگی پسندوں، کالعدم بلوچ دہشت گرد تنظیمیں، ڈاکو اور سمگلروں سمیت مختلف قسم کے مافیا ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور اُنہوں نے پاکستان کے خلاف ایک نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔امریکی خارجہ کمیٹی رپورٹ میں اِس بات پر بھی یقین کا اظہا رکیا گیا ہے کہ یہ جدید امریکی ہتھیار افغان طالبان نے خود پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو دیئے ہیں۔ وزیراعظم انوارالحق کاکڑنے بھی برملا کہا ہے کہ افغان حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان مخالف طالبان اور عسکریت پسندوں کے افغانستان میں ٹھکانے کہاں ہیں، وہ کیسے دراندازی کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور واپس افغانستان میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ اِن کا مطالبہ بجا ہے کہ افغان انتظامیہ یا تو خود امن دشمن گروہوں کے خلاف کارروائی کرے یا اُنہیں پاکستان کے حوالے کرے۔ایسا نہیں کہ یہ مطالبہ پہلی بار کیا گیا ہے، پاکستان پہلے بھی کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے، پاکستانی حکام افغان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکے ہیں تاہم اُس کی طرف سے کئی بار یقین دہانیاں تو کرائی گئیں لیکن عملی طور پر تاحال کچھ نہیں کیا گیا۔
امریکی انخلاء کے بعد افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے والی حکومت کی پاکستان نے بڑھ چڑھ کر مدد کی تھی،دنیا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے اِنکاری تھی لیکن یہ پاکستان ہی تھا جس نے اِن طالبان اور افغان عوام کی ہر طرح سے مدد کی۔ امریکی انخلاء کے فوری بعد آنے والے شدید سرد موسم کی وجہ سے افغانستان میں خوراک اور ادویات کی عدم موجودگی کے باعث جب لاکھوں شہریوں خصوصاً خواتین اور بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں تو یہ پاکستان ہی تھا جس نے نہ صرف پوری دنیا کو اِس کا احساس دلایا بلکہ چین سمیت دیگر دوست ممالک کے ساتھ مل کر افغان بہن بھائیوں کو ادویات، خوراک اور گرم کپڑے پہنچائے حتیٰ کہ بھارت کو گندم پہنچانے کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی پیشکش بھی کی۔ امریکہ میں پڑے افغان حکومت کے اربوں ڈالروں کی واپسی کے لئے بھی دنیا بھر میں پاکستان ہی نے آواز بلند کی۔تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کے دور میں 2020ء کے معاہدہ اَمن کے بعد ہزاروں شہری افغانستان چھوڑ کر پاکستان آباد ہوئے لیکن 2017ء کے بعد جس دہشت گردی پر پاکستان قابو پا چکا تھا وہ اِس اَمن معاہدے کے ختم ہوتے ہی دوبارہ سے سر اُٹھانے لگی،2020ء کے بعد اِن واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا،خاص طو پر سکیورٹی فورسز پر حملوں میں بہت تیزی آ گئی۔ گزشتہ تین برسوں میں سینکڑوں اہلکار دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اُس معاہدے کے بعد پاکستان میں آ کر بسنے والے طالبان میں چھپے پاکستان مخالف ایجنٹوں میں سے بعض براہِ راست دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور افغانستان سے آنے والوں کو ہر ممکنہ مدد فراہم کرتے ہیں۔ اپنے گھروں میں ٹھہرانے کے علاوہ حساس علاقوں کی معلومات کے ساتھ ساتھ اِن کی ہر طرح کی سہولت کاری کی جاتی رہی ہے۔ پاک افغان سرحد پر اربوں روپے کی لاگت سے باڑ بھی نصب کی لیکن اِسے بھی مسلسل نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے۔اِن سب حالات و واقعات کے پیشِ نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغان انتظامیہ پاکستان مخالف عناصر کا قلع قمع کرتی لیکن امریکہ کے مطابق وہ اِنہیں خاموش مدد فراہم کرتی رہی۔ دوسری جانب بھارت بھی ایسے عناصر کو مال و اسباب سمیت ہر طرح کی مدد اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان نے بارہا نہ صرف دہشت گردی میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کئے بلکہ افغان حکومت کو بھی اِس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی۔ پاکستانی حکام نے کابل جا کر افغان حکومت کو اُن کی دھرتی پر موجود ٹی ٹی پی کے کیمپوں کی تفصیلات ثبوتوں کے ساتھ فراہم کی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین پر چھپے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی۔ گزشتہ دنوں یہ خبر آئی تھی کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کو گھیر کر مخصوص علاقوں تک محدود کرنا چاہتی ہے تاہم اِس کا کوئی عملی ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔افغان حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایک ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو گی تو اِس کا اثر پورے خطے پر پڑے گا، دوسرے ممالک بھی اِس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ وہ اگر آج پاکستان کے لئے کانٹے بوئیں گے تو کل اُن کے حصے میں پھول ہرگز نہیں آئیں گے۔ افغان حکومت پر لازم ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا ساتھ دے، اِس کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے، اپنا رویہ بدلے اور برادر ملک ہونے کا حق ادا کرے۔