مقبول احمد قریشی ایڈوکیٹ
ملک کے طول و عرض میں رہنے والے کروڑوں لوگ اس معاملہ پر حیران ہیں کہ اس سرزمین کے باسی ما شاء اللہ جدید دور کے حالات کے مطابق ایسی بیشتر خوبیوں کے حامل ہیں جن کو بروقت استعمال کرنے سے وطن عزیز مختلف اور مثبت انداز کے شعبہ حیات میں آئندہ مختصر عرصہ میں لحاظ سے کامیابی کے بہت جاندار نتائج فراہم کرکے افراد کی مشکلات میں کمی کر سکتا ہے۔ لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کی استعداد یا کچھ کم درجہ کے روز گار کی سہولت اگر ملک کے اندر ہی اہلیت اور انصاف کے مسلمہ اصولوں کے تحت دینے کے بارے میں دیانتداری سے رائج اور جاری رکھنے کی حکمت عمل کو خلوص نیت سے اپنایا جائے تو امید واثق ہے کہ آئندہ محض چند سال کے عرصے میں ملکی معیشت میں خاصے قابل ذکر بہتری کے حالات دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔ سیاستدان حضرات اپنے کارکنوں کے مسائل ان کے قانونی طور پر جائز امور کو کچھ محنت اور احتیاط سے حل کر کے ان کی تشفی کر سکتے ہیں لیکن چھوٹے درجے کی ملازمت پر دفاتر میں ایک یا دو سیٹوں پر دو سے تین گنا افراد کو لگا دینا کسی طور درست کارکردگی نہیں کہلا سکتی۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تکنیکی تربیت حاصل کئے ہوئے لا تعداد نوجوانوں کو ملک میں کوئی ملازمت یا روز گار نہ ملنے کی بنا پر بیرون ممالک جا کر خجل خراب ہونا پڑ رہا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ ستم یہ ہے کہ اس غلط یا با امر مجبوری کی پالیسی کو تا حال میرٹ اور صلاحیت اصولوں کو بدقسمتی سے اختیار نہیں کیا گیا۔ اس معاملے میں ایشیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہاں ہمارے کئی اہل وطن سال ہا سال سے مصروف کار ہیں۔ وہ اکثر یہ بتاتے ہیں کہ ان ملکوں کے لوگوں کی ترقی کا راز شبانہ روز محنت، کرپشن سے سخت اجتناب اور احتساب کے کڑے اور بلا امتیاز نظام کار میں پنہاں ہے۔ جبکہ ہم اپنے ملک کے مختلف اداروں میں گھوسٹ ملازمین سے ابھی تک جان نہیں چھڑا سکے۔ یہ لوگ ظاہر ہے کہ بڑے با اثر افراد کے زیادہ تر عزیز و اقارب ہیں جو سکولوں یا دفاتر میں جا کر کوئی ڈیوٹی انجام دینے کی بجائے گھر بیٹھے سالانہ کروڑوں یا اربوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات کی مد میں وصول کرتے ہیں لیکن اُن شعبوں میں کوئی مثبت کارکردگی اکثر اوقات دیکھنے میں نہیں آتی۔ اگر یہ غلط کاری اہل سیاست کی سرپرستی سے مرتکب ہوتی ہے تو پھر اس کو بھی موثر طور پر روکنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ وفاقی اور صوبائی نگران حکومتیں اس بارے میں کچھ تگ و دو کر کے ان مفت خور افراد کی غیر قانونی موجودگی سے نجات دلا سکیں تو یہ کارکردگی بیشک ملکی معیشت کی بہتری کے لئے مثبت پیش رفت ہو گی۔
ملک میں سالانہ اربوں روپے کی کرپشن کے تمام یا بیشتر راستوں اور چور دروازوں پر بغور منصوبہ سازی قابو پانے کی کوششیں کی جائیں۔ اگرچہ بڑے اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ اور بعض با اختیار افسر، ایسی ملک اور سماج دشمن سرگرمیوں کے مجرموں کی معاونت بھی کرتے ہیں تو ان کی ایسی غلطیوں کو آخر ہمارے متعلقہ اداروں نے ہی قانونی گرفت میں لانا ہوتا ہے۔
واضع رہے کہ سرکاری اداروں کی ایسی روایتی کوتاہیوں کی وجہ سے ملک کو سالانہ اربوں روپے کی بڑی رقوم کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا زیادہ خراب کارکردگی اور خیانت کاری سے چشم پوشی کرنے والے اداروں کے افسران کو اپنی ڈیوٹی کی پہلوتہی کا احساس دلا کر زیادہ توجہ اور تن دہی سے کام کرنے پر مائل کیا جائے کیونکہ ملکی دولت اور قیمتی وسائل کے تسلسل سے مزید ضیاع کا ہمارا ترقی پذیر ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ عدالتی مقدمات پر حکومت کی جانب سے پیروی کرنے والے قانونی افسر اور پیرو کار حضرات کو بھی بڑی مالیت کی وارداتوں کے معاملات پر زیادہ محنت اور توجہ دے کر مقدمات جیتنے کی سعی کرنا ضروری ہے۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ مجرم افراد کی جانب سے زیادہ مالی وسائل، جدید اسلحہ اور آمد و رفت کے تیز رفتار ذرائع بھی حاصل کرنے کی تگ و دو کی جاتی ہے۔ اس طرح وہ قانونی اور واقعاتی رکاوٹوں کو اپنے مال و زر سے خرید کر عدالتی مقدمات میں کامیابی کے لئے بھرپور زور لگاتے ہیں۔ جبکہ سرکاری طرف سے ایسے حوصلے اور جرأت مندی کا عموماً مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ اس بارے میں خصوصی توجہ اور محنت بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ اس ظلم و جبر کے تسلط اور تسلسل پر واضح طور پر غیر موثر اور ناکام دیکھنے میں آ رہی ہے جبکہ ویٹو پاور رکھنے والی اسرائیل کی حامی طاقتوں بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور کئی بار فرانس کے حکمران اس کی جارحیت اور بربریت کے کھلے استعمال کے باوجود اس کی حمایت اور حوصلہ افزائی کر کے فلسطین کے عوام کی جان و مال کی ہلاکت، تباہی اور بربادی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذکورہ عالمی ادارے کے موجودہ ناقص ڈھانچے میں کچھ ترمیم کر کے یو این سیکرٹری جنرل کو یہ اختیار تفویض کیا جائے کہ وہ ایسے مواقع پر جنگ بندی کے لئے بین الاقوامی امن فورس کے استعمال سے جارحیت کرنے والے فریق کو روک کر انسانی جانوں کے تحفظ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر قابو پا سکیں۔
اقوام متحدہ کا قیام مورخہ 24 اکتوبر 1945ء کو عمل میں آیا تھا اس عالمی ادارے کی تشکیل کا بڑا مقصد کمزور اور محروم عوام کے آزادی اور انسانی حقوق کو تحفظ کی فراہمی تھا۔ لیکن اہل فلسطین جو امن بنیادی حقوق سے گزشتہ پون صدی سے محروم رکھنے سے ہاں امن کا قیام کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں جلد مثبت کردار کی ضرورت ہے۔