صحافت میں، ایسا بھی ہوتا ہے!

کالج میں داخلہ لیا تو بڑے شوق اور فخر سے پروفیسر بننے کے عزم کا اظہار کیا۔ شعرو و ادب سے دلچسپی کے باعث ارادہ یہی تھا کہ شعبہ اردو میں پروفیسر بنوں گا۔ ٹوٹی پھوٹی شاعری اور افسانہ نگاری بھی کیا کرتا تھا۔ ان دنوں پروفیسر سہیل اختر، پروفیسر بشیر فرحت ڈاکٹر اسد ادیب احمد عقیل روبی اور پروفیسر بی، اے، عاربی سے متاثر تھا۔ شوقیہ صحافت شروع کر دی تھی۔ میں سید نا یش الوری اور مجید گل سے شعبہ صحافت کے حوالے سے کافی متاثر تھا۔ کالج کے ابتدائی دو سال تک پروفیسر بننے کا شوق رہا۔ پھر یہ ہوا کہ شوقیہ صحافت نے غلبہ پایا اور میں نے اپنے حلقہ احباب کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ صحافی بن کر عملی زندگی کا آغاز کیا جائے سب سے زور دار مشورہ پوفیسر سہیل اختر نے دیا۔ ایک روز انہوں نے بتایا کہ وہ ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئے ملتان جائیں گے مجھے ان دنوں نزلہ اور بخار نے پریشان کر رکھا تھا۔ اس لئے کوشش اور زبردست خواہش کے باوجود میں پروفیسر صاحب کے ساتھ ملتان نہ جا سکا۔ پروفیسر سہیل اختر نے روز نامہ ”امروز“ ملتان کے دفتر جا کر اپنی غزلیں اور ایک منظوم ترجمہ ایڈیٹر مسعود اشعر صاحب کو دیں تو اس موقعہ پر سہیل اختر صاحب نے ان سے کہا ہ بہاولپور میں ایک نوجوان نے ادبی اور ثقافتی تقریبات کی رپورٹ انٹرویوز اور وغیرہ بھجوائے ہیں معیاری ہوں تو شامل اشاعت کر لیا کیجئے گا۔ ایڈیٹر مسعود اشعر صاحب نے رضا مندی ظاہر کر دی مجھے ٹائیفائیڈ ہو گیا تو چار پانچ ہفتے بعد طبیعت سنبھل سکی صحت یابی کے بعد جب پروفیسر سہیل اختر نے ایڈیٹر صاحب سے ملاقات کا ایک بار پھر ذکر کیا تو میں نے تقریبات کی طرف توجہ دی اور کل پاکستان محفل مشاعرہ کی رپورٹ ”امروز“ ملتان کو بھجوا دی جسے اسی ہفتے نمایاں طور پر شائع کیا گیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک ہفتے میں دو دو رپورٹس شائع ہونے لگیں میری رپورٹس کو بہاولپور میں کافی پسند کیا جانے لگا۔ تیسرے چوتھے مہینے میں ملتان گیا اور ایڈیٹر صاحب سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ پروفیسر سہیل اختر صاحب کے عزیز کا انتقال ہو گیا تو وہ ہمراہ نہ جا سکے اور ڈیرہ غازی خان چلے گئے۔ میں اکیلا ہی ملتان پہنچا۔
سوچا تھا کہ اپنی رپورٹس نمایاں شامل اشاعت کرنے پر مسعود اشعر صاحب کا شکریہ ادا کروں گا۔ مسعود اشعر صاحب ادبی شخصیت بھی تھے۔اُن سے تفصیلی اور یادگار ملاقات بھی ہو گی۔ ایک صفحے پر میں نے اپنے کچھ اشعار بھی لکھ رکھے تھے کہ ایڈیٹر صاحب کو سنا کر داد حاصل کی جائے گی۔ روز نامہ ”امروز“ میں شائع ہونے والی میری رپورٹس پر بعض لوگوں کے کمنٹس بھی لکھ رکھے تھے۔ سید تابش الوری پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کی وجہ سے بہت مصروف ہو چکے تھے، روز نامہ ”جنگ“ کراچی کے نمائندہ خصوصی تھے لیکن مصروفیات کی وجہ سے خبریں اور ڈائری وغیرہ نہیں بھجواتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ”جنگ“ کراچی کے لئے اہم خبریں بھیج دیا کروں۔ اس کے لئے انہوں نے میر خلیل الرحمن سے بات کر رکھی تھی۔ میں ”امروز“ کا باقاعدہ ملازم تو نہیں تھا، اس کے باوجود مسعود اشعر صاحب کو بتانا ضروری سمجھتا تھا۔ اس موضوع پر بھی بات چیت کے لئے ذہن میں خاکہ تھا۔ سید تابش الوری نے میری رپورٹس پر اپنی رائے اور پسندیدگی سے مسعود اشعر صاحب کو آگاہ کرنے کی تاکید بھی کی تھی کیا جانے کیا ارمان لے کر ہم ”امروز“ کے دفتر پہنچے تھے۔
مسعود اشعر صاحب کا کمرہ گراؤنڈ فلور پر ہی تھا۔ ان کے چپراسی نے مجھے ایک سفید کاغذ پر نام کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے لکھنے کے لئے کہا تو میں نے صرف ”ممتاز شفیع۔ بہاول پور“ لکھا اور وہ کاغذ اسے دے دیا۔ چپراسی اندر گیا تو چار پانچ لوگ ایک ایک کر کے باہر چلے گئے۔ گھنٹی بجی تو چپراسی نے دروازہ کھولاا ور مجھے کہا کہ آپ اندر جائیں۔ میں اندر گیا اور ”السلام علیکم“ کہا مجھے دیکھ کر ایڈیٹر صاحب نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ میں نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ”ممتاز شفیع“ یہ سنتے ہی ایڈیٹر صاحب اچھل پڑے۔ ”اچھا…… تو آپ ہیں ممتاز شفیع“ مجھے بیٹھنے کے لئے کہا اور فون پر کہا ”نوشابہ، آپ جلدی سے میرے پاس آ جائیں۔“ چند لمحوں بعد نوشابہ صاحبہ ایڈیٹر صاحب کے کمرے میں آ گئیں تو ایڈیٹر صاحب نے کہا آیئے…… اور ان سے ملیئے یہ ہیں مس ممتاز شفیع۔ یہ سن کر نوشابہ بھی حیران رہ گئیں اور زور سے قہقہہ لگایا۔ میں اپنی جگہ حیران تھا۔ ایڈیٹر صاحب اور نوشابہ (پورا نام نوشابہ نرگس) نے بتایا کہ آپ کی رپورٹس آتی تھیں تو ہم بحث کیا کرتے تھے کہ آپ خاتون ہیں کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ آپ مرد ہیں۔ آج اس لئے خوشگوار حیرت ہو رہی ہے۔ اسی دوران چیف رپورٹر ولی محمد واجد اور سینئر سب ایڈیٹر شمشاد بھی ٓ گئے وہ بھی ہنس ہنس کر ملاقات میں شامل ہو گئے۔ ولی محمد واجد نے کہا۔ نوجوان آپ کا ذکر اکثر ہوتا تھا کیونکہ آپ کی بیشتر رپورٹس میں خواتین کے انٹرویوز اور تقریبات میں خواتین کا ذکر زیادہ ہوتا تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے چائے اور بسکٹ سے سب کی تواضع کی اور سارا وقت اسی ”حسن اتفاق“ پر باتیں ہوتی رہیں۔ اس ملاقات کا ذکر لاہور آفس بھی پہنچ گیا۔ جب ملازمت کے لئے میں دو سال بعد لاہور گیا تو میرا دلچسپ تعارف کئی لوگوں سے ہو چکا تھا جن میں ایڈیٹر ہارون سعد۔ ڈپٹی ایڈیٹر حمید اختر۔ چیف رپورٹر اکمل علیمی اور فوٹو گرافر یعقوب بھٹی بھی شامل تھے۔ چیف نیوز ایڈیٹر حیدر علی خاں اس دلچسپ ملاقات پر مسعود اشعر صاحب کو ملتان فون کر کے چھیڑتے رہے۔ حیدر علی خاں کہتے کہ آپ کے دفتر میں خواتین کی پذیرائی یوں بھی ہوتی ہے! اکثر یہ فلمی نغمہ ”محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے“ میں یہ نغمہ گنگنانے میں بلا شبہ حق بجانب تھا۔ آج بھی جب ایڈیٹر صاحب سے پہلی ملاقات یاد آتی ہے تو بے ساختہ ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔