بھیانک غلطی یہی ہے کہ 9مئی کی منصوبہ بند سازش کو ’’سیاسی معاملہ‘‘ سمجھا جارہا ہے ،کیا یہ گاؤں کی کوئی ’’سوکنانہ‘‘ لڑائی تھی؟ سینیٹر عرفان صدیقی نے "مبلغین مفاہمت " کو کھری کھری سنا دیں

بھیانک غلطی یہی ہے کہ 9مئی کی منصوبہ بند سازش کو ’’سیاسی معاملہ‘‘ سمجھا ...
بھیانک غلطی یہی ہے کہ 9مئی کی منصوبہ بند سازش کو ’’سیاسی معاملہ‘‘ سمجھا جارہا ہے ،کیا یہ گاؤں کی کوئی ’’سوکنانہ‘‘ لڑائی تھی؟ سینیٹر عرفان صدیقی نے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور ( خصوصی رپورٹ )بھیانک غلطی یہی ہے کہ 9مئی کی منصوبہ بند سازش کو ’’سیاسی معاملہ‘‘ سمجھا جارہا ہے ،بقول خان صاحب، اُن پر100ے زائد مقدمات دائر ہیں، کوئی ایک بھی نوازشریف نے درج نہیں کرایا۔ خود عمران خان، اپنی افتاد کا ذمہ دارنوازشریف کو نہیں ’’راولپنڈی‘‘ کو ٹھہراتے ہیں۔ کیا 9 مئی کوئی روایتی قبائلی جھگڑا تھا؟ کیا یہ گاؤں کی کوئی ’’سوکنانہ‘‘ لڑائی تھی کہ کوئی بڑا بوڑھا پنچایت لگا کر فتویٰ جاری کر دے؟سینیٹر و سینئر تجزیہ کار عرفان صدیقی نے "مبلغین مفاہمت " کو کھری کھری سنا دیں ۔

 "جیو " میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان "9 مئی: سازش یا ’’سیاسی معاملہ ‘‘؟" میں سینیٹر عرفان صدیقی نے لکھا ہے کہ بھیانک غلطی یہی ہے کہ 9مئی کی منصوبہ بند سازش کو ’’سیاسی معاملہ‘‘ سمجھا جارہا ہے۔ یہ کسی بھی پہلو سے سیاسی معاملہ نہیں۔ جب تک یہ مغالطہ دور نہیں ہو جاتا بحث لاحاصل رہے گی۔اسی مغالطے کی رو میں بہتے ہوئے اصرار کیا جا رہا ہے کہ 9مئی کو پی ٹی آئی کی ’’غلطی‘‘ سے بھی درگزر کرلیا جائے۔ ’’مُبلّغین مفاہمت‘‘ مصر ہیں کہ 9مئی پر مٹی ڈالنے اور معافی تلافی کی ذمہ داری نوازشریف پر عائد ہوتی ہے۔ میں نے اس ضمن میں عرض کیا تھا کہ عمران خان کی سپاہ نے نہ تو رائیونڈ پر حملہ کیا ہے نہ ہی شریف فیملی کے خاندانی قبرستان کی بے حُرمتی کی ہے۔ بقول خان صاحب، اُن پر100ے زائد مقدمات دائر ہیں، کوئی ایک بھی نوازشریف نے درج نہیں کرایا۔ خود عمران خان، اپنی افتاد کا ذمہ دارنوازشریف کو نہیں ’’راولپنڈی‘‘ کو ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے مختلف عدالتوں میں متعدد پٹیشنز دائر کر رکھی ہیں۔ کسی ایک میں بھی نوازشریف کو فریق نہیں بنایا۔ وہ جانتے ہیں کہ لڑائی کس سے ہے اور معاف کردینے کی صلاحیت کون رکھتا ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ عمران خان نے اگر معافی تلافی کا معاملہ کرنے کیلئے اپنے دل و دماغ پر پڑا قفل کھولنا ہے تو اسکی چابی نواز شریف نہیں، خود عمران کی جیب میں ہے اور اگر فوج نے خود پر ہونیوالے حملوں کو محض ایک ’’سیاسی معاملہ ‘‘سمجھتے ہوئے کوئی فراخ دلانہ فیصلہ کرنا ہے تو اسکی چابی بھی، نوازشریف نہیں، خاکی وردی والوں کی جیب میں ہے جنکے سربراہ نے2 روز قبل ہی کہا ہے کہ ’’کسی گروہ کی مسلح کارروائی ناقابلِ قبول ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک حالیہ فیصلے میں 9مئی کے واقعات کو متشدّدانہ کارروائیاں قرار دیا ہے جنہیں اپنے مقاصد کے حصول کا ’’جائز‘‘ طریقہ سمجھ لیاگیا ۔

اپنے بلاگ میں سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید  لکھا  کہ نواز، عمران تعلقات کی کہانی میں خان صاحب کی ’’گرم جوشی‘‘ کا کسے اندازہ نہیں؟ 2013ء کی انتخابی مہم میں عمران خان اسٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تو نوازشریف نے جلسۂِ عام میں اُنکی صحتیابی کی دعا کی۔ دودِن کے لئے انتخابی مہم معطّل کردی۔ ہسپتال میں اُنکی عیادت کو گئے۔ وزیراعظم بنے تو تلخیاں کم کرنے کیلئے بنی گالہ چلے گئے۔ جواب میں انہیں چور ڈاکو کی گردان، اپنے دفتر اور رہائشگاہ پر فدائین کی گالیوں اور الزام ودشنام کے سوا کچھ نہ ملا۔ نفرتوں کی آگ مسجد نبویؐ کی مشکبو فضاؤں تک پہنچ گئی۔ اکتوبر 2004ء میں میاں محمد شریف کا انتقال ہوا تو آمر وقت، پرویز مشرف نے بھی نواز اور شہباز کو فون کرکے تعزیت کی۔ خان صاحب کو توفیق نہ ہوئی۔ نوازشریف کی والدہ اور اہلیہ کا انتقال ہوا تو عمران وزیراعظم تھے۔ گھر جاناتو دور فون پر بھی تعزیت نہ کی۔ ایک رسمی بیان کافی سمجھا۔

اپنے بلاگ کے آخر میں  سینیٹر عرفان صدیقی نے لکھا کہ آج اگر نوازشریف کے سینے میں فرشتے کا دِل بھی ہو تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ سینہ سپر ہوکر فوج کے سامنے کھڑا ہوجائے اور 9 مئی کی خوں رنگ شام کے دفاع میں تلوار سونت لے؟ کیا 9 مئی کوئی روایتی قبائلی جھگڑا تھا؟ کیا یہ گاؤں کی کوئی ’’سوکنانہ‘‘ لڑائی تھی کہ کوئی بڑا بوڑھا پنچایت لگا کر فتویٰ جاری کر دے؟ ایک بار اس مکروہ سازش پر مٹی ڈال دی گئی تو کل کوئی بھی جتھہ، کوئی بھی گروہ، کوئی بھی بے مہار مجمع، دفاعِ وطن کی علامتوں پہ چڑھ دوڑے گا اور پھر ’’سیاسی جماعت‘‘ کی بکّل مار کر، تسبیح تھامے ’’مٹی ڈالو‘‘ کا ورد کرنے لگے گا۔ اگر جنرل اکبر خان سازش سے لے کر جنرل ظہیرالاسلام عباسی سازش تک تمام کرداروں کو اپنے کئے کی سزا ملی توکیا’’ زمان پارک سازش‘‘ پر صرف اسلئے مٹی ڈال دی جائے کہ اس کے مرکزی کردار نے وردی نہیں پہن رکھی؟ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آئین وقانون کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملزمان کو کڑی سزائیں سنا کر نمونۂِ عبرت بنادیا جائے۔ ہر شہری کے آئینی حقوق ہیں۔ اُنکی پاسداری ہونی چاہیے۔ زیادتی یا ناانصافی کا ہلکا سا شائبہ بھی بے لاگ انصاف کے تاثر کو مجروح کردیتا ہے۔