محبت اور شفقت کی نرالی کشمکش ہے، نفرت کی کوئی سرزمین نہیں ہوتی، یہ محبت کی زمین پر ہی قابض ہوتی ہے، کیا تم نے کبھی اس کا نوٹس لیا ؟

 محبت اور شفقت کی نرالی کشمکش ہے، نفرت کی کوئی سرزمین نہیں ہوتی، یہ محبت کی ...
 محبت اور شفقت کی نرالی کشمکش ہے، نفرت کی کوئی سرزمین نہیں ہوتی، یہ محبت کی زمین پر ہی قابض ہوتی ہے، کیا تم نے کبھی اس کا نوٹس لیا ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:194
  سنو!”یہ محبت اور شفقت کی بھی نرالی کشمکش ہے۔ تم جانتے ہو نفرت کی اپنی کوئی سرزمین نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ محبت کی زمین پر ہی قابض ہوتی ہے۔ کیا تم نے کبھی اس کا نوٹس لیا ہے؟“ میرے دوست نے سوال کیا۔ ”نہیں۔اس بارے کبھی غور نہیں کیا۔ ہاں تجربے کی بنیاد پر ایک بات کہے دیتا ہوں میرا مشاہدہ ہے کہ ہماری اکثر محبتیں شفقت میں بدل جاتی ہیں مگرمیں کبھی اس کی وجہ نہیں جان پایا ہوں۔تم بتاؤ گے کیا؟“میں نے جواب دیا۔ میری بات سن کر وہ سنجیدہ ہو گیا ہے۔ اس کی مچلتی بوڑھی موجیں جیسے تھم سی گئی ہوں۔ لمحوں کے توقف کے بعد بولا؛ ”بات محبت کے بدل جانے کی نہیں، دراصل مسائل کے ہجوم میں کہیں کھو جانے کی ہے۔ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی بہت سی حسرتیں اور خواہشیں بھی مٹی کر دیتے ہیں، غم دوراں کی آندھی میں۔بھائی!دنیا کاناکام آدمی وہ ہے جو ماضی میں کئے گئے اپنے فیصلوں کو یاد کرکے حال کو اور خود کو کوستا ہے۔جو پا لیا نصیب تھا باقی سب سراب ہے۔ کسی تم جیسے سیانے نے کہا تھا؛”سائے جتنی ہے ملکیت سب کی، باقی جو ہے ناجائز تجاوزات ہیں۔“ وقت کے ساتھ ساتھ محبت بھی شفقت میں بدل جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے احسا س ہی نہیں رہتا کہ کب محبت شفقت میں بدلی اور پھر محبت محبت نہیں رہتی شفقت بن جاتی ہے۔“”میں سمجھا نہیں۔“ وہ سمجھانے لگا؛”دراصل محبت کہیں کھوتی نہیں بس کسی اور جذبے میں ڈھل جاتی ہے اور باقی عمر ہم اس شفقت کو ہی محبت سمجھ کر گزار دیتے ہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ساری زندگی محبت کے خانے میں محبت کی جگہ خالی رہتی ہے۔ اب تمھیں سمجھ آیا کہ ہر حسین چہرے سے محبت کا احساس کیوں ہونے لگتا ہے تمھیں۔ یاد رکھو کبھی کبھی شفقت کا قرض محبتوں کے ادھار سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔“ داستان گو کی دانائی لاجواب ہے۔وہ بولے چلا جا رہا ہے اور اپنی دانائی کے بھید بھی کھولے جا رہا ہے۔
”محبت بھی کمال شے ہے جس پروار کرتی ہے بڑا کاری کرتی ہے۔سر تاپا بدل دیتی ہے۔ دوسروں کو اس کیفیت میں دیکھ کر جگ ہنستا ہے لیکن جب خود اس پر یہ وار ہوتا ہے تو اسے اپنی زندگی بھونچال کی سی دکھائی دیتی ہے۔ دل اورمحبت در اصل دو دھاری تلوار کی مانند ہیں ایک طرف سے زہر میں بجھے خنجر کی طرح تو دوسری طرف نرم گلاب کی پنکھڑی کی طرح۔ یہ ناوک نیم کش کی طرح دل مضطرب میں داخل ہو کر نہ رات کو چین لینے دیتی ہے اور نہ دن کو سکون سے رہنے دیتی ہے۔ زندگی میں کوئی نہ کوئی ہار ایسی ہوتی ہے جس کے بعد ساری عمر کچھ بھی جیتنے کو دل نہیں کرتا۔ ویسے بھی قدر وہ ہوتی ہے جو زندگی میں کی جائے جو کسی کے جانے کے بعد ہو وہ پچھتاوا ہے۔میرے دوست۔“سندھو نے شاہ عبداللطیف بھٹائی  ؒ کا ایک سندھی کا شعر سناڈالا ہے، جس کا مطلب کچھ یوں ہے؛
ترجمہ؛  پہلے  چو بھے خنجر پھر کر باتیں پریت کی
 ساز کی صورت درد سجن کا باجے دل کے اندر
 انگاروں پہ پک کر پھر لے نام عشق کا
سندھو کی بات سن کے باس کہنے لگے؛”عظیم سندھو!یہ عشق ہے ہی ایسی چیز کہ انسان کی زندگی بنا بھی دیتا ہے اور بگاڑ بھی دیتا ہے۔محبت انسان کو مکمل کر تی ہے یا ادھورا چھوڑ دیتی ہے۔بحث طلب ہے۔ محبت میں کچھ لوگوں کی رات کاٹے نہیں کٹتی۔ میں نے اکثر محبت میں گرفتار لوگوں کو کہتے سنا ہے؛”اچانک وہ میری آنکھوں کے دریچے کھول کر میرے دل کے آنگن میں آ کر بیٹھ جاتی ہے۔ میں لاکھ کوشش کرتا، خود کو چھپاتا آنکھیں میچ لیتا ہوں مگر وہ مجھ سے ہی ہم کلام رہتی ہے مجھے اپنے شب و روز بتاتی ہے۔“کیا یہ محبت ہے یاوہ جو راتوں کو جاگتے ہیں عشق کے ڈسے ہوتے ہیں؟ جو اس مرض کے مریض نہیں وہ یہ کہتے ہیں؛’یار!یہ دنیا بڑی مطلبی ہے اس سے دور ہی رہنا چاہیے۔عشق کے چکر میں پڑا نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔“ باس نے اتنا کہا اور ساتھ ہی سندھوسے سوال کر ڈالا؛”نفرت لمحوں میں محسوس کر لی جاتی ہے اور محبت کا یقین دلانے میں عمر کیوں بیت جاتی ہے؟“ سندھو اپنی نجیف آواز میں کہنے لگا؛”باس! محبت پہلے عقل اور پھر دل پر حملہ کرتی ہے اور پھر وہاں سے نکلتی نہیں۔اسی لئے اس پر یقین کرنے میں بہت دیر لگتی ہے جبکہ نفرت دماغ میں گھستی ہے اور فوراً اپنا یقین دلا دیتی ہے۔بات سمجھ آئی آپ کو باس۔“باس بولے؛”دانا ہی دانائی سمجھا سکتا ہے۔“ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -