آبادی سے باہر نکلے تو سورج دھیمے دھیمے چمک رہا تھا، دُور دائیں طرف سیاہ بادل ڈیرہ ڈالے اور ہمارے اوپر صرف آوارہ سی چند سفید رنگ کی بدلیاں
مصنف:ع۔ غ۔ جانباز
قسط:22
12-8-2018
پاکستان کا یوم آزادی
مسّی ساگا سے مغرب میں Milton واقع ہے۔ وہاں پاکستان کے یوم آزادی کے جشن کا اہتمام ایک بڑے خوبصورت گول شکل و صورت کے سائیکل سٹیڈیم میں کیا گیا تھا۔ لہٰذا پچھلے پہر ہم اس جشن میں اپنا حصّہ ڈالنے چل پڑے۔ آبادی سے باہر نکلے تو سورج دھیمے دھیمے چمک رہا تھا۔ دُور دائیں طرف سیاہ بادل ڈیرہ ڈالے اور ہمارے اوپر صرف آوارہ سی چند سفید رنگ کی بدلیاں اور بائیں طرف آسمان اپنی پوری رعنائی کے ساتھ نیلگوں جامہ اوڑھے مطمئن۔
کیا پانچ رویہ کشادہ سڑکیں، ڈرائیونگ کے ضابطہ اخلاق کی پابندی واہ واہ! کیا مجال کوئی اگلی گاڑی سے آگے نکلنے کی کوشش کرے۔ سامنے کسی جگہ کوئی پیدل سڑک پار کرنے کی کوشش میں نظر پڑا تو جناب دور سے پاؤں گاڑی کی بریک پر، جب تک پیدل سڑک پار نہ کر جائے کیا مجال جو گاڑی کو حرکت ہو۔
دائیں بائیں ہریاول ہی ہریاول، رنگا رنگ کی Speciesکے درخت، جھاڑیاں، گھاس…… لو دائیں طرف ایگریکلچر والوں نے بھی حصّہ ڈال دیا۔ مکئی کی جواں سال فصل مکئی کے سٹے عالم شباب کی طرف رواں دواں …… لو دائیں طرف اُف اتنا بڑا Warehousen…… بھئی بڑی بڑی انٹرنیشنل کمپنیاں ڈیرہ ڈالے ہیں۔ شہر شہر بڑے بڑے مال سجائے بیٹھے ہیں۔ آخر اُن میں بھرا انواع و اقسام کا مال اُنہی Warehouses سے آتا ہے کوئی آسمان سے تو نہیں اُترے گا۔
لو دائیں طرف لگے بورڈ نے نشاندہی کردی کہ ہم نے Milton کی راہ پالی۔ کچھ فاصلہ طے کیا تو جناب ایک دیوہیکل گرجا گھر…… جو کم و بیش سو سال پرانا ہے۔ دیکھیں ذرا اِس کی بلڈنگ کیا شاہکار تخلیق کیا ہے۔
ذرا گاڑی رُکی…… بے وجہ نہیں …… وہاں کچھ خرید و فروخت بھی ہوگی اور اُس کے لیے رقم درکار ہوگی۔ وہ سامنے گاڑی ڈالی تو ایک ATM مشین پر لکھا تھا۔
"Not in working Order"
یار کچھ کینیڈا کی لاج رکھتے؟ چلو آگے CIBC …… Banking Centre سے کیش لیا اور چلتے بنے۔ آبادی سے نکلے تو گول جسم و جاں لیے ایک خوبصورت سائیکل سٹیڈیم میں جا پہنچے۔ سڑک پر دو رویہ لمبی قطاریں لگی ہوئی…… یا اللہ کہاں گاڑی پارک کریں تو سٹیڈیم کی دیواروں کے پاس جا پہنچے۔
خوش قسمتی سے محمد اعجاز اُدھر جو آئے تو پارکنگ کا مسئلہ حل ہوگیا۔ انہوں نے ایک سٹال بُک کروایا ہوا تھا اور ساتھ پارکنگ بھی تھی تو جناب خراماں خراماں چل دئیے اور بڑے شاہانہ انداز میں گاڑی پارک کردی۔
یاد رہے اعجاز صاحب کا بیٹا Sammi Ejaz اس سال Councillor کا الیکشن لڑ رہا ہے۔ اُسی نے وہ سٹال بک کرایا تاکہ اپنی کنویسنگ کے لیے ایک اڈہ قائم ہو۔ سٹیڈیم کے Community Entrance کے سامنے خالی جگہ پر خور و نوش کی اشیاء، عورتوں کی زیبائش کے سامان سے لدے سٹالز، ریڈی میڈ جنک فوڈ، برگر، رول، شوارمے، آئس کریم اور سب سے پرلی طرف Jumping کی گیمز اور چند انشورنس اور دوسری کمپنیوں کے سٹالز۔
اِن سٹالز کے ساتھ بہتا ایک نالہ اور نالے سے پار کچھ بظاہر زرعی رقبہ لیکن کوئی بڑی فصل نظر نہ پڑی۔ سٹیڈیم میں داخل ہوئے، داخلہ فری تھا۔ اور فرسٹ فلور پر جا پہنچے جہاں سینکڑوں کرسیوں کی قطاروں اور اوپر بنے Raised اپر کلاس میں تقریباً سب کی سب کرسیاں سامعین سے پُر تھیں۔ خوش قسمتی سے ایک کونے میں جگہ ملی تو بیٹھ گئے اور سامنے سٹیج کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور کیسٹرا اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ ایک مغنیہ کے ساتھ ہمنوا سامعین کو گرما رہا تھا۔ وہ محترمہ سیاہ شلوار کے اوپر سبز کڑھائی والی قمیض زیب تن کیے ننگے سر نغمہ سرا تھیں۔ لیکن گانا جو گا رہی تھیں وہ تھا ”دوپٹہ میرا ………… کرلیں جو کرنا ہے؟
گانا ”پھر سونے کی طبیتڑی“
پھر گانا ”بوہے باریاں“
اور آخری گانا ”سانوں نہر والے پُل تے بلا کے خبرے ماہی کتھّے رہ گیا“
محترمہ بڑی دیدہ دلیری سے حاضرین سے خود ہی داد وصولی کرتی رہیں۔
پھر بلوچی ڈانسرز سٹیج پر آئے اور انہوں نے ہوا میں سرخ دوپٹے لہرا کر حاضرین سے داد وصول کی۔ مؤخرالذکر اعجاز صاحب کا بیٹا Sommi Ejaz جو کونسلر کے الیکشن میں کھڑا ہے وہ اسٹیج پر آیا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسی دوران لوگوں کی آمد جاری رہی تو کرسیوں میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کھڑے ہو کر پروگرام دیکھنے کے لیے مجبور ہوئے۔ ایک سنگر نے حاضرین سے کہا کہ اپنے ”فونز“ کی لائٹس آن کرلیں۔ چنانچہ سارا حال ان لائٹس کی روشنی سے جگ مگ کرنے لگا تو انہوں نے اپنا گانا سنایا۔
پھر ایک سنگر نے گانا ”تیرا دیوانہ ……“ گا کر محفل کو خوب گرمایا۔
مغرب کی نماز کا وقت ہوا تو نماز کے لیے وقفہ کر دیا گیا۔
نماز کے بعد پروگرام کا آغاز ہوا تو مشہور سنگر ”فاخر“ نے سٹیج سنبھالی اور اپنی سریلی آواز اور پیارے پیارے نغموں سے سامعین کے دل گرمائے۔ یاد رہے اس سٹیڈیم میں دیواروں کے ساتھ ایک Elevatal Cycling Track ہے جہاں لڑکے لڑکیاں سائیکل چلا کر ایکسر سائز کر تے ہیں۔ آپ جب اسٹیڈیم کے اندر داخل ہوں تو بائیں طرف کئی سو سائیکل سٹینڈ پر کھڑے آپ پائیں گے۔ جو اسی لیے رکھے ہوئے ہیں۔
ہم جب 10 بجے پروگرام ختم ہونے پر واپس جانے کے لیے باہر نکلے تو اندر جانے کے متمنی 300-200 لوگوں کو انتظامیہ نے روک رکھّا تھا کہ اندر House Full تھا۔
اِس طرح ہم یہی کوئی 11 بجے کے قریب گھر پہنچے اور کھانا کھا کر اپنے اپنے بیڈز کی راہ لی،۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)