مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:67
زمانہ جدید اور سیاحوں کی آمدو رفت سے متاثر ہو کر کچھ نوجوانوں نے اپنے گھر کی بیرونی دیواروں پر قدیم مصری انداز میں فرعونوں اور ان کی ملکاؤں کی بڑی بڑی رنگین تصاویر بھی بنوائی ہوئی تھیں۔ وہاں سے گزرتے ہوئے سیاح انہیں ایک نظر دیکھ کر مسکرانا نہیں بھولتے تھے اور مصور کے فن کی تصویر بنائے اور داد دیئے بغیر آگے نہ بڑھتے تھے۔
گاؤں کا مختصر سا جائزہ لے کر ہم اسے پار کر کے آگے نکل گئے اور کچھ وقت ان کے کھیتوں میں گزارنے کا سوچا۔ شام ڈھل چکی تھی اس لئے اکثر کسان اب گھروں کو لوٹنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ہر طرف ہریالی پھیلی ہوئی تھی۔ پانی کی فراوانی تھی۔ بڑی نہروں سے چھوٹی چھوٹی آبی گزر گاہیں دریائے نیل کا پانی لے کر کھیتوں میں جاتی تھیں۔ ہر طرف کھجوروں کے جھنڈ پھیلے ہوئے تھے اور مکئی کے خوبصورت اور سر سبز کھیتوں میں بہار آئی ہوئی تھی۔ ان کے پودوں کا گہرا سبز رنگ اور اوپر بھٹوں کے سنہری بال آنکھوں کو بڑیبھلے لگ رہے تھے۔ اس کے علاوہ آس پاس امرودوں اور دوسرے پھلدار پودوں کے باغات بھی نظر آ رہے تھے اور اکثر جگہ موسمی سبزیوں کی کاشت بھی کی گئی تھی۔ کئی جگہ پر کسان ہلوں میں اونٹ یا بیل اورگدھے جوتے نئی فصل کے لئے کھیت تیار کر رہے تھے۔
سوندھی اور گیلی مٹی کی خوشبو فضاء میں ہر سو پھیلی ہوئی تھی اور ہریالی آنکھوں کو تراوٹ اور روح کوبالیدگی بخش رہی تھی۔ وہاں کھڑے ہو کر لمبے لمبے سانس لینے کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے گاؤں کی سیر کے دوران اتنا لطف نہیں اٹھایا جتنا ان حسین وادیوں میں آکر مجھے ملا تھا۔ شائد میرے اندر کا سویا ہوا کسان لمحے بھر کے لئے جاگ گیا ہو۔ میں وہیں ایک باغ کی شکستہ سی دیوار پر بیٹھ گیا اور ایک بار پھر ماضی میں اترتا چلا گیا، جب قدیم مصری بھی یہاں اسی انداز میں کاشتکاری کرتے ہوں گے۔ لیکن اس وقت ان کی حیثیت غلاموں کی سی تھی۔ وہ اپنی ساری تیار شدہ فصلیں اکٹھی کرکے محلات میں لاتے ہوں گے اور فرعونِ وقت کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہوں گے،جو اس کے بدلے میں ان کی معمولی سی خوراک اور رہائش کا بندوبست کر دیتا ہوگا اور کچھ نقدی انہیں روزمرہ کے اخراجات کے لئے تھما دیتا ہوگا۔تاکہ ان کی چلتی ہوئی سانسوں کا تسلسل قائم رہے اور وہ ایک بار پھر پوری جاں فشانی سے کام کریں اور خون پسینے کی کمائی سے اپنے بادشاہ کے لئے ذہنی اور مالی سکون کا باعث بنیں اور انہیں کاروبار سلطنت چلانے، نئی نئی عمارتوں کی تعمیر اور شہنشاہی عیاشیوں کے لئے سرمایہ مہیا کرسکیں ۔
سورج غروب ہونے میں کوئی آدھ گھنٹہ رہ گیا تھا۔ دریائے نیل کے پانیوں کے اوپر اُفق سرخ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تب ہی احمد نے یاد دلایا کہ الأقصر جانے والی آخری کشتی دس منٹ بعد روانہ ہونے والی ہے۔ ہم تیز تیز قدموں سے واپس لوٹے اور ایک بار پھر اسی گاؤں کی گلیوں میں سے گھومتے گھماتے واپس کشتی گھاٹ کی طرف آگئے جہاں کشتی لنگر انداز تھی اور مسافر ایک ایک کر کے اس میں سوار ہو رہے تھے۔ ہم بھی قطار میں لگ کر اندر آکر بیٹھ گئے۔ کشتی نے پیچھے رہ جانے والوں کو روانگی کی اطلاع دینے کے لئے زور دار آواز میں بھونپو بجایا اور پھر کچھ دیر انتظار کرکے الأقصر کی طرف روانہ ہوگئی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں