سنی اتحادکی پارلیمانی حیثیت کیخلاف،کرپٹ عہدیداروں کی برطرفی کی درخواستیں خارج

Nov 21, 2024

 اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کر دی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملے کو دیکھا جائے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے نے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں، امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔عدالت نے درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کر دی۔ آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست بھی خارج کر دی۔ دوران سماعت، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیے، آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے اور کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتہ نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔ اعلی عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹائم لائن کے لیے پارلیمنٹ سے جاکر قانون سازی کروا لیں۔درخواست گزار حسن رضا نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ ایسی عمومی باتیں نہ کریں اور الزام نہ لگائیں، سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے، آپ کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے، جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ عدالتی ریفارمز کے لیے لا اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، وہاں رجوع کریں۔ عدالت نے دلائل کے بعد درخواست خارج کر دی۔دریں اثناسپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے تمام کرپٹ سرکاری عہدیداران کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کی درخواست میں استدعا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے انہیں فارغ کریں، آپ ان سرکاری افسروں کی نشاندہی کریں اور متعلقہ اداروں سے رجوع کریں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کسی سرکاری آفیسر کا نام تک نہیں لکھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا کونسا کام نہیں ہوا عدالت کو بتائیں! اس کا کیا مطلب ہے ہم صدر، وزیر اعظم، اسپیکر اور پارلیمنٹیرینز سب کو نکال دیں۔ دریں اثناء جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کے حوالے سے جسٹس فرخ عرفان خان کی درخواست پر سماعت کی۔آئینی بینچ نے نظر ثانی درخواست غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹاتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ مستقبل میں کسی اور مقدمے میں سینیارٹی کے اصول کا معاملہ طے کریں گے۔جسٹس عائشہ ملک نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں؟ چار ججز کے حوالے سے ایشو تھا یہاں تو ججز ریٹائر بھی ہو چکے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پانچ لوگوں نے ایک ساتھ حلف لیا تو عمر کے حساب سے سینیارٹی طے ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہ کہ آپ عدالت کو اکیڈمک ایکسر سائز کرنے کا کہہ رہے ہیں۔وکیل حامد خان نے دلائل میں کہا کہ ججز کا نوٹیفکیشن ساتھ ہونے کے بعد اگر حلف ایک دن تاخیر سے بھی لیں تو سینیارٹی برابر ہی ہوگی، جسٹس فرخ عرفان نے امریکا ہونے کے سبب چیف جسٹس کو آگاہ کر کے حلف ایک دن بعد اٹھایا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج جب تک حلف نہیں اٹھاتا تب تک وہ جج نہیں ہوسکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ نظرثانی میں آئے ہیں فیصلے میں غلطی کیا ہے وہ بتائیں، اگر کوئی شخص نوٹفکیشن کے ایک ماہ تک حلف نہیں لیتا اور بعد میں وہ انکار کر دے تو کیا ہوگا؟۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ بہتر ہے اس معاملے کو اوپن رکھیں کسی اور کیس میں طے کر لیں گے۔

آئینی بینچ

مزیدخبریں