چار عورتیں، تین کہانیاں
یہ ایک بہت بڑا جنگل ہے اِس میں 13کروڑ کے قریب انسان نما لوگ رہتے ہیں۔یہ دنیا بھر کے جنگلوں سے اس لئے منفرد ہے کہ جنگل کے قانون میں ایک نسل کا جانور اپنی نسل کے جانوروں کو نہیں کھاتا اور اگرکوئی قدرتی آفت آ جائے تو جانور اِس آفت کا مل کر مقابلہ کرتے ہیں، آفت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمزوروں کو مار مار کر نہیں پھینکتے، لیکن اِس جنگل کے کوئی قوانین ہی نہیں ہیں۔یہاں رہنے والے جانور جو انسان نما ہیں سب سے زیادہ اپنی نسل کو نقصان پہنچاتے ہیں، ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کے حصے میں کچھ نہ آنے پائے۔یہ ایسی مخلوق ہے جس کی نظرصرف اپنے اردگرد اور صرف ذاتی مفادات تک محدود ہوتی ہے۔دوسرے جنگلوں کے حکمران اِس جنگل کی مثال دے کراپنی رعایا کو ڈراتے ہیں کہ دیکھو قوانین کا احترام کرو ورنہ وہاں کے باشندوں جیسا حال ہو جائے گا۔
اِسی جنگل میں ایک سیاسی عورت رہتی ہے انتہائی چوکنا اور ہر کسی کی اندر تک خبر رکھنے والی۔وہ دوسروں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا بہت اچھا جانتی ہے اس لئے وہ اِس جنگل کے بڑوں بڑوں کو اپنی انگلیوں پر نچانا جانتی ہے اس کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ مداری ہو اور آگے اس کے بچے جمہورے ہوں پھر اُس نے سوچا کہ بچے جمہورے کی جگہ بچی جمہوری ہونی چاہئے اس نے جنگل میں اپنی من پسند بچی جمہوری تلاش کرنا شروع کر دی۔ جب جنگل میں یہ خبر پھیلی کہ مضبوط سیاسی عورت کو ایک بچی جمہوری کی تلاش ہے۔بچی جمہوری بننے کی پہلی شرط یہ تھی کہ عورت کی زبان بہت لمبی ہو اور دوسری یہ کہ بچی جمہوری مداری کی کسی بات کی نفی نہ کرے اور اس کے غلط کہے کو بھی درست ثابت کرنے کے لئے اپنی دراز زبان کو کھل کر استعمال کرے۔ہزاروں زبان دراز عورتیں مارکیٹ میں آ گئیں اور اپنے جوہر دکھانے لگیں،لیکن سیاسی عورت کو اپنی ایک پرانی نمک خوار اِس کام کے لئے سب سے مناسب لگی اور وہ بچی جمہوری کے منصب پر فائز ہو گئی، ہر بات کا جواب دینے کی صلاحیت اسے سب سے ممتازکر گئی اور بچی جمہوری متعدد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئی۔ جنگل کے لوگ کہتے تھے کہ بچی جمہوری جھوٹ بولنے اور نت نئی کہانیوں کا فن جانتی ہے ویسے اس میں کوئی صلاحیت نہیں۔
بچی جمہوری کا کام بہت بڑھ جانے پر سیاسی عورت کو اکثر ایک اور بچی جمہوری کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ یہ ضرورت اُس وقت زور پکڑ گئی جب چند مخالفین کی طرف سے بہت بدتمیزی شروع کر دی گئی ایسی بدتمیزی کا جواب دینے کے لئے ان سے بھی زیادہ بدتمیز شخص کی ضرورت تھی۔سیاسی عورت کو کوئی بھی اتنا بدتمیز مرد نہ مل سکا تو اُس نے ایک اور بچی جمہوری کی تلاش شروع کر دی۔پھر اس کی نظر ایک گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی عورت پر ٹھہرگئی اس میں یہ خوبی تھی کہ وہ کئی بدتمیزوں کو اکیلے میں سنبھال سکتی تھی۔دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ دوسروں کی خبر بہت زیادہ رکھتی تھی اور سیاسی عورت کو آئے دن انوکھی باتیں بتاتی تھی ان میں سے کتنی سچی اور کتنی جھوٹی ہوتی تھیں یہ بات صرف وہ خود ہی جانتی تھی۔وہ یہ بات خوب جان گئی تھی کہ سیاسی عورت کیسی معلومات میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اور وہ ویسی ہی معلومات اسے فراہم کر کے خوب داد وصول کرنے لگی اور ترقی کی سیڑھیاں چڑھ کر پہلی بچی جمہوری کی ٹکر کی بچی جمہوری بن گئی۔
ایک دن بدتمیز بچی جمہوری سیاسی عورت کے پاس آئی اور بولی کہ آج بہت بڑی خبر ہے اور سیاسی عورت کی بے جا خوشامد کرنے لگی۔اسی خوشامد کے دوران اس نے سیاسی عورت کو راحت اندوری کا یہ شعر سنایا:
تمہیں سیاست نے حق یہ دیا ہے
ہری زمینوں کو لال کر دو
اپیل بھی تم،دلیل بھی تم، گواہ بھی تم وکیل بھی تم
جسے بھی چاہو حرام کہہ دو جسے بھی چاہو حلال کر دو
یہ شعر بھی سیاسی عورت نے اپنی تعریف میں سمجھا اور مسکراتے ہوئے کہا یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن جو خبر سنانے آئی ہو پہلے وہ تو سنا دو۔بدتمیز بچی جمہوری بولی ہمارے جنگل میں دور پتن کے اس پار ایک عورت رہتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ جادوگرنی ہے اُس نے آپ کے سب سے بڑے مخالف سے نکاح کر لیا ہے اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ جادو کے زور سے جنگل پر آپ کی حکمرانی ختم کرا دے گی ہمیں اِس بات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اس کا کوئی توڑ نکالنا چاہئے۔
سیاسی عورت مسکرائی اور بولی یہ پرانے زمانے کے جادو ٹونے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ہو سکتا ہے وقتی طور پر کچھ نقصان پہنچا دیں، لیکن میں نے جدید جادو کا جو جال بچھا رکھا ہے فائنل کامیابی اسی کی وجہ سے حاصل ہو گی۔ بچی جمہوری نے پوچھا یہ جدید جادو کون سا ہے۔سیاسی عورت نے کہا یہ کہ خریدے ہوئے لوگوں کے ذریعے پراپیگنڈا ہر زور آور کو خرید لینا۔اپنے بولے ہوئے لفظوں کا جادو اور سب سے بڑا جادو کا نیٹ ورک میرے کیمروں کا نیٹ ورک ہے جو میں نے ایسی ایسی جگہوں پر لگا دیئے ہیں جہاں کسی کی سوچ بھی نہیں جا سکتی،ہرکوئی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے میری مٹھی میں ہو گا۔اب رہ گئی بات چند اتھرے مردوں کی تو وہ آخرکار خطرناک عورتوں کے چنگل میں پھنس کر بے بس ہو جائیں گے،پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کیمروں کی فلمیں،لاکھوں انوکھی معلومات،جنگل کے سارے وسائل استعمال کئے جائیں گے اس لئے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔پھر ہنستے ہوئے یہ شعر پڑھا:
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
ان چار عورتوں کی تین کہانیاں پورے جنگل میں پھیل چکی تھیں،جنگل کے باسی اپنی اپنی پسند کی کہانی کو ہی سچ جان رہے تھے جبکہ کسی کہانی کا کوئی ثبوت نہیں تھا،جو چند ذی ہوش لوگ جنگل میں رہتے تھے ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ بالکل سیدھا چل رہا ہے یہ سب باتیں جنگل کے وسائل چپ چاپ لوٹنے والوں کی پھیلائی ہوئی ہیں تاکہ جنگل کے کروڑوں باسی آپس میں لڑتے مرتے رہیں اور وہ پس پردہ اصل حکمران بنے رہیں اور آہستہ آہستہ پورا جنگل ہڑپ کر جائیں۔