کتابوں کی دنیا

Nov 21, 2024

نسیم شاہد

کتابوں سے محبت کرنے والے بوڑھے نہیں ہوتے۔ میں نے یہ بات کہیں پڑھی تو سوچنے لگا ایسا کیوں ہوتا ہے، پھراس کا جواب مجھے خود ایک کتاب سے مل گیا۔میں نے جب اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے یوں لگا زندگی متنوع ہے اور اُس میں قدم قدم پر رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ایک ظاہر کے رنگ ہوتے ہیں اور دوسرے احساس و جذبات کے رنگ،ظاہر کے رنگوں سے تو کسی وقت بھی لطف اُٹھایا جا سکتا ہے البتہ جذبات و احساسات کے رنگوں سے مستفید ہونے کے لئے کسی کتاب کے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی ہے یوں ہم نت نئی دنیاؤں سے ہمکنار ہوتے ہیں اور یہی وہ تنوع ہے جو ہمیں بوسیدہ اور بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔آج کتابوں کی دنیا میں دو کتابیں منتخب کی گئی ہیں پہلی کتاب ڈاکٹر اسلم انصاری کے سرائیکی کلام پر مشتمل ہے جس کا نام ”پہلے مینہ دی جھانور“ (پہلی بارش کی پھوار) اور دوسری کتاب نظم و غزل کے منفرد شاعر ظہور چوہان کی نظموں کا مجموعہ ”خالی سڑک“ ہے۔یہ دونوں کتابیں حال ہی میں شائع ہوئی ہیں اور ادبی حلقوں میں بھرپور پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔

ڈاکٹر اسلم انصاری جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، شاعرِ ہفت زبان تھے۔انہوں نے اردو، فارسی،انگریزی  اور سرائیکی میں اپنی شاعری کا وسیع اثاثہ چھوڑا ہے۔انہوں نے فارسی میں بارہ ہزار اشعار کہے جبکہ اردو میں اُن کی ضغیم کلیات بھی شائع ہو چکی ہے،اُن کا یہ شعری مجموعہ”پہلے مینہ دی جھانور“ اگرچہ اُن کی زندگی میں ترتیب پا چکا تھا تاہم اشاعت پذیر اُن کی وفات کے بعد ہوا۔اس مجموعے میں اُن کی غزلیں، نظمیں، کافیاں، نثری نظمیں اور تراجم شامل ہیں سرائیکی زبان کو تخلیقی سطح پر متعارف کرانے میں ڈاکٹر اسلم انصاری کا بڑا کردار ہے۔خاص طور پر انگریزی سے سرائیکی میں تراجم کر کے انہوں نے اس زبان کو وسعت اور تخلیق کے اعلیٰ معیار  سے متعارف کرایا ہے اُن کی سرائیکی شاعری بھی فارسی اور اُردو شاعری کی طرح اپنا ایک منفرد مقام اور منفرد انداز رکھتی ہے۔ڈاکٹر اسلم انصاری  سرائیکی کو ماں بولی کا درجہ دیتے ہیں اُن کے پاس سرائیکی کی وہ ڈکشن موجود ہے جو اس زبان کے اعلیٰ معیارکو سکہ بند کر دیتی ہے۔یہ کتاب ڈاکٹر اسلم انصاری نے ممتازدانشور رانا محبوب اختر کی تحریک پر چھپوائی۔رانا محبوب  اختر لکھتے ہیں ”ہزاروں زبانوں اور ہزار رنگ دنیا  میں ہفت زبان اسلم انصاری قاری کو ماں بولی کے باغ کی سیر کراتے ہیں۔ ”پہلے مینہ دی جھانور“ کی وجہ سے ماں بولی کے باغ میں پھول کھلے ہیں اسی کے ساتھ رباعی کا جنم ایک بڑا واقعہ ہے“۔(ترجمہ) ڈاکٹر اسلم انصاری  بیکوقت شاعر، فلسفی، مفکر اور دانشور تھے۔اس لئے اُن کی تخلیقات میں اِن تمام پہلوؤں کی جھلک نظر آتی ہے۔اس مجموعے کی پہلی نظم ”عشق ازل دی فجر دا تارا“ ایک ایسی تخلیق ہے جس میں انہوں نے عشق کی رمزیات کے تمام تر عوامل سمو دیئے ہیں جس طرح اُن کی نظم ”گوتم کا آخری واعظہ“ اردو کی ایک بڑی نظم ہے،اُسی طرح یہ سرائیکی نظم بھی اپنے تخیل، معیار اور خیال کے حوالے سے بڑی نظم کہلائی جا سکتی ہے۔ دراصل اسلم انصاری زبان کوئی بھی تخلیقی سطح پر اتنا بلند جا کر سوچتے ہیں کہ قاری کو جہانِ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ مجموعہ کلام جس میں 47 رباعیاں، کچھ منتخب غزلیں، نثری نظمیں اور ترامیم شامل ہیں اِس قابل ہے کہ اسے اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیا جائے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری  نے دیگر زبانوں کی طرح سرائیکی زبان کو بھی اپنی زندگی کا بہت سا وقت دیا۔ اُن کا سرائیکی ناول”بیڑی وچ دریا“ سرائیکی کا پہلا ناول ہے، جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر الیاس کبیر نے ”میں ندیا“ کے عنوان سے کیا ہے۔ اس سرائیکی مجموعہ کلام کے موضوعات اپنی دھرتی کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔سرائیکی زبان کی وسعت اور تخلیقی اظہار کا اگر ذائقہ چکھنا ہو تو ڈاکٹر اسلم انصاری کا یہ مجموعہ کلام اُس کا بہترین سرچشمہ ہے یہ کتاب بکس اینڈ ریڈرز ملتان نے بڑے اہتمام سے شائع کی ہے۔

ظہور چوہان بہاولپور میں مقیم ہیں تاہم اُن کی ادبی پہچان پورے ملک میں موجود ہے۔اپنے پانچ مجموعہ ہائے غزل کے بعد حال  ہی میں وہ اپنا پہلا مجموعہ نظم ”خالی سڑک“ کے نام سے منصہ شہود پر لائے ہیں۔ظہور چوہان غزل گو شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں تاہم ا ب نظم گو شاعر کی پہچان بھی اُن کے حصے میں آ چکی ہے۔غزل کے مقابلے میں نظم کا میدان بہت زیادہ تخلیقی ذہانت مانگتا ہے۔ اگرچہ نظم کے بہت تجربے  ہو چکے ہیں تاہم اس کے باوجود تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوئے کہ نظم آگے نہ بڑھ سکے۔ظہور چوہان کو اِس بات کا ادراک و شعور ہے کہ نظم کی میراث میں اپنا حصہ ڈالنا کتنا مشکل و دشوار ہے۔وہ لکھتے ہیں۔آوارگی اور تنظیم دونوں بیکوقت میرے مزاج کا حصہ ہیں لہٰذا دھیرے دھیرے طبیعت نظم لکھنے کی طرف مائل ہونے لگی،نیززندگی میں رونما ہونے والے بہت سے ایسے منتشر خیالات، واقعات اور حادثات تھے،جن کے مکمل اظہار کے لئے آخر کار نظم کا سانچہ ہی کارگر ثابت ہوا، لیکن اس عمل میں تقریباً بارہ سال سے زائد کا عرصہ چیزوں کے بکھراؤ اور یکجائی میں لگا“۔ ظہور چوہان کے اس اظہار سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ وہ باقاعدہ شعوری فیصلے سے نظم کی طرف آئے ہیں اب ظاہر ہے جب ایسے فیصلے سے آپ اپنے اظہار کا سانچہ تبدیل کرتے ہیں تو اس پر بہت زیادہ توجہ بھی دیتے ہیں۔یہی  وجہ ہے کہ اُن کی نظم کو پذیرائی مل رہی ہے۔ ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر جواد جعفری جیسے جید ناقدین اگر اُن کی نظم کو ایک نئی تخلیق بازیافت کہہ رہے ہیں تو اِس کا مطلب ہے ظہور چوہان نظم کے اُس تخلیقی سمندر میں اپنی پہچان کرانے میں کامیاب رہے ہیں جس میں شناخت گم تو ہو سکتی  ہے بن نہیں سکتی۔ ظہور چوہان کی نظموں کے موضوعات میں تنوع اُن کی ایک خاص خوبی ہے۔اُن کی تخلیقی آنکھ کا عدسہ سامنے کی حقیقتوں کے باطن  میں اُترنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اُن کی نظم ”واہگہ بارڈر کے دونوں طرف“ انسانی المیے کی اُس شکل کو آشکار کرتی ہے،جو شاید واہگہ بارڈر پر جانے والوں کو نظر نہیں آتی۔ظہور چوہان کی طویل نظمیں درحقیقت وہ سچی کہانیاں ہیں،جو ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہیں میرے نزدیک یہ نظم کی نئی تکنیک ہے،جس کے ذریعے زندگی کی تلخی حقیقتوں کو آشکار کیاگیا ہے۔ کچھ نظمیں موضاتی ہیں اور کچھ تاثراتی تاہم  اُن کی نظموں میں کوئی ابہام نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر سعادت سعید کہتے ہیں، میں انہیں اُن کے نظمیہ مجموعے کی اشاعت پر تہہ دِل سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔اُن کے بلاواسطہ اور بلواسطہ شعری بھائی بیانیوں کو سراہتا ہوں۔انہوں نے اپنی کیفیتوں اور صداقتوں کو جس منطقی انداز سے  سپردِ قلم کیا ہے وہ انہیں ایک ”ممیز نظم نگار“ بنانے کے لئے کافی ہے۔

مزیدخبریں