دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی مختلف اقسام کے مسائل سے دوچار ہے۔ ان مسائل میں سر فہرست مسئلہ معاشی کمزوری ہے۔ پاکستان میں موجود وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے سے وطن عزیز کی تقدیر بدل سکتی ہے۔کچھ سال پہلے کرونا نے معیشت پر برا اثر ڈالا تھا اور اب سموگ نے پنجاب میں ڈیرہ ڈال دیا ہے۔ ماحول میں پانی کے بخارات کے ساتھ آلود کار جیسا کہ نائٹروجن آکسائیڈ ، سلفر آکسائیڈ وغیرہ شامل ہو کر سموگ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
سموگ سانس کی بیماریاں پیدا کرنے کے علاوہ دوسری بیماریوں مثلاً برین اسٹروک ، ہارٹ اٹیک وغیرہ کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ سموگ میں موجود آلود کار ذیابطیس ، ذہنی تھکاوٹ ، علمی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل کا بھی ذریعہ بنتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق صاف ہوا کے معیار کی قیمت 5 مائکروگرام فی کیوبک میٹر ہے۔ سموگ کی بنیادی وجوہات میں انسانی سرگرمیاں جیسا کہ لکڑی کو جلانا، ٹرانسپورٹیشن کا بڑھتا استعمال ، بجلی کی پیدوار کے لیے فوسل فیولز پر انحصار، زراعت میں باقیات کو جلانا، جنگلات کو کاٹنا، صنعتوں سے بغیر ٹریٹمنٹ کے آلود کار مواد کا اخراج وغیرہ شامل ہیں۔
سموگ بننے کے قدرتی ذرائع میں آتش فشانی ،ایروسول، گردو غبار وغیرہ شامل ہیں۔ لندن میں جب سموگ کا مسئلہ پیدا ہوا تو نہ صرف ائیر کوالٹی ایکٹ پاس کیا گیا بلکہ اس پر مکمل عمل درآمد بھی کیا گیا۔ سموگ کے تدارک کے لیے تشہیری مہم کافی نہیں ہوتی بلکہ ٹھوس لائحہ عمل اور اقدامات کرنا ازحد ضروری ہوتے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں کو گرا دینا، صنعتوں کو چلنے سے روک دینا حل نہیں ہے۔ ملک عزیز کی معاشی حالت پہلے ہی دگر گوں ہے۔ عوام غربت اور مہنگائی کی چکیوں میں پس رہے ہیں۔ صرف سموگ ہی معاشرے کو بیمار نہیں کر رہی بلکہ کمزور معیشت ، اخلاقی گراوٹ، انصاف کی عدم دستیابی ،کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور غیر معیاری خوردنی اشیاء بھی خطرناک طریقے سے اثر انداز ہو رہی ہیں۔
ضلعی سطح پر پرائس کو چیک تو کیا جاتا ہے لیکن اشیاء کو نہیں۔ دکانوں پر غیر معیاری چیزوں کی بھرمار حفظان صحت کے اصولوں کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ غیر معیاری اشیاء کی خرید وفروخت اور تیار کرنے پر عملی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔سموگ کی بڑی وجوہات میں سے ایک ٹرانسپورٹ ہے۔ تو کیوں نہ ٹرانسپورٹ کے استعمال میں دانشمندی دکھائی جائے۔ اداروں کو مہنگی گاڑیوں، جو زیادہ فوسل فیولز استعمال کرتی ہیں , کے استعمال سے روک دیا جائے۔ عوام بھی کمفرٹ زون سے نکل کر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرے۔
صنعتوں کو بند کرنے کی بجائے آبادی سے دور شفٹ کیا جائے۔ زگ زیک ٹیکنالوجی کے لیے چھوٹے بھٹہ خشت کے مالکان کی جزوقتی مدد کریں۔ درختوں کی بے تحاشہ کٹائی کا آب و ہوا تبدیل کرنے میں کردار واضح ہے۔درختوں کی کٹائی کو روکا نہیں جا رہا ۔ کیوں؟ پندرہ بلین درخت ہر سال کاٹ لیے جاتے ہیں۔
ورلڈ وائلڈ لائف فورم کے مطابق دنیا میں پاکستان جنگلات کاٹنے والا دوسرا بڑا ملک ہے حالانکہ پاکستان میں پہلے ہی صرف پانچ فیصد پر جنگلات ہیں۔چرند و پرند کے مساکن تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ جانداروں کی کئی سپی شیز اینڈیجرڈ سپی شیز بن چکی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائڈ اور دوسری گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ ماحول میں درجہ حرارت کے اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ موہنجو دڑو ، ہڑپہ ، احرام مصر شاندار ماضی کے ساتھ اپنے خاتمے کا ماتم کر رہے ہیں۔ یورپ میں دی بلیک ڈیتھ اور امریکہ میں دی ڈسٹ باؤل واضح اشارے ہیں۔ تباہی انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں خطرے کی علامت ہیں۔ ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہے ۔
خود پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔معدنی وسائل کو استعمال میں لانا چاہیے۔درختوں کی کٹائی روک کر شجر کاری کے اقدامات کی حوصلہ افزائی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔سیرو سیاحت کے مقامات پر توجہ دے کر اچھا ریونیو بنایا جا سکتا ہے۔ برآمدات پر ٹیکس انتہائی کم اور درآمدات پر ٹیکس کو بڑھایا جائے ۔مہنگی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے، جبکہ چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح کم کی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اصل مسائل کی طرف توجہ دی جائے تو جزوقتی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ ایسے کام ہر گز مت کریں کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو صاف ماحول دینے سے قاصر رہیں۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔