سب سے بڑا چیلنج (1)
جرمنی فلسفی شوپن ہار نے کہا تھا....”نئی عمارتوں کی بنیادیں وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو یہ جانتے ہوں پرانی دیواریں کیوں بیٹھ جاتی ہیں “ ۔لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر قبائلی علاقوں میں تعینات رہنے کے باعث دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور نشانوں سے خوب واقف ہیں اور کراچی میں رینجرز کی کمان کرنے کے سبب وہ جرائم پیشہ عناصر کو بھی اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں ،گویا اگر وہ چاہیں تو نئی عمارت کی نیو اٹھا سکتے ہیں،لیکن آیا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پرانی دیواریں کیوں بیٹھ جاتی ہیں ؟ ملکی مستقبل کا انحصار اسی سوال کے درست جواب پر موقوف اور منحصر ٹھہرا کہ ہمارے ہاں بار بار کیوں پارلیمانی جمہوری نظام کی دیوار بیٹھا کیے ؟
سراغرسانی کے نئے سربراہ کو اپنے تمام پیشرووں سے بڑھ کر سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے ۔جی ہاں سب سے بڑا چیلنج ! ان سے پہلے آنے والے سب کے سب صاحبان لگے بندھے راستے پر چلتے رہے، مگر اب کی بار موسموں کے تیور جدا اور فضا کا سماں سوا ہے ۔پہلے خطرہ سرحدوں سے باہر تھا ،اب دشمن سرحد پار نہیں عین مرکز میں ملتا ہے ۔جنرل کیانی کے عہد میں پاک فوج کے ڈاکٹرائن میں تبدیلی اس بات کا واضح اور صریح ثبوت ہے کہ دفاعی اداروں کی اعلیٰ کمان کے ذہن میں دشمن کی شبیہہ کب کی بدل چکی ۔دوسرا یہ کہ پہلے سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین تعلقات کی نوعیت مختلف رہی ہے اور اب اس کے خدو خال اور حدود وقیود بدلنے چلی ہیں۔ پہلے دونوں قیادتیں ایک دوسرے کوکبھی آنکھیں دکھا دیتیں ،کبھی آنکھیں چرالیتیں ،کبھی آنکھیں ملا لیتیں اور کبھی کبھی آنکھیں جھکا لیتیں،لیکن یہ بیتے سموں اور گئے دنوں کی باتیں ہیں اور اب ہم 80 ء،90یا 99ءکی دہائی میں نہیں 2014ءکے جدید عہد میں جیا کیے ۔امتدادِ زمانہ اور گردشِ ایام کے ساتھ ساتھ پرانے فرسودہ و فضول نظریے اور طریقے وقت کے کوڑے دان میں جا پڑے ہیں ۔تاریخ کی کسوٹی پر کھرا پایا گیا طریقہ اور حقیقت کی میزان پر تولا گیا نظریہ ہی بالآخر متداول اور مروج ہو رہتا ہے ۔
آب پارے کی آنکھوں کے تارے کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے ،اس کے دو جزو ہیں : اپنی خفیہ ایجنسی کی تما م تر طاقت و ہیبت استعمال کرتے ہوئے آپریشن ضرب ِ عضب کو ہر صورت اور ہر قیمت پرفتح مبین سے ہمکنار کرنا اور دوسرااپنے ادارے کو سیاست میں مداخلت کی متوارث روایت سے پاک کرنا ۔باالفاظِ دیگر یوں کہئے کہ دہشت گردی کا شجر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور آئی ایس آئی کے کردار کو آئینی دائرے کے اندر رکھنا کہ وہ بال برابر باہر نہ نکلے ۔ہر چیف کی تعیناتی پر توقعات اور خواہشات کا منہ زور گھوڑا مچلنے لگتا ہے اورامیدیں امڈی آتی ہیں لیکن کیا کیجئے کہ انسانی جبلت اور سرشت یہی ہے۔ خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہترین کی تلاش اور جستجو انسانی ذہن کے زندہ ہونے کی نوید دیتی ہے ۔ نئے چیف کا تعلق فرنٹیئر فورس سے رہا ہے اور وہ اس شعبے سے چُنے گئے آئی ایس آئی کے چھٹے چیف ہیں ۔ کراچی میں رینجرزاہلکاروں کے ہاتھوں جب سرفراز نامی نوجوان کی ہلاکت ہوئی تو سندھ رینجرزکے ڈی جی میجر جنرل اعجاز چودھری کو اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر ہٹا نا پڑا۔ تب جنرل ہیڈ کوارٹر کے ہنگامی اجلاس میں غور وخوض اور سوچ بچارکی گئی کہ چودھری صا حب کی جگہ بھیجئے تو کسے بھیجئے ؟ قرعہ فال رضوان اختر کے نام نکلا کہ بگڑے معاملات کو سنبھالنے کا ملکہ رکھتے ہیں ۔ادارے کی جانب سے یہ ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داری و کارکردگی کا بر ملا اعتراف اور اقرار ہے ۔قبائلی خطوں میں ذمہ داری کے دوران بھی وہ اگلے مورچے پر پائے جاتے رہے اوران کی خدمات ،تعلیم وتجربہ مسلمہ ہے کہ وہ خالصتاً محاذ اور میدان کے آدمی ہیں۔کاو¿نٹر ٹیئررازم اور عسکریت پسندی پر ان کا مشاہدہ ،نظریہ اور تجربہ بھی بے پایاں و فراواں ٹھہرا۔
سپہ سالاری کے بعد پاک فوج میں آئی ایس آئی چیف کا عہدہ بلند ترین منصب اور برتر ترین ذمہ داری تصور کی جاتی ہے اور کی بھی جانی چاہیئے کہ ملکی دفاع اور دشمن پر دائمی دباو¿ کے لیے اس ادارے کا کردار ڈھکا چھپا کہاں ۔اس کے ساتھ ایک اور سنگین و تلخ حقیقت بھی جڑی کھڑی ہے کہ حکومتوں کے بناو¿ بگاڑ میں بھی یہاں کے سجن متر جنتر منتر پھونکا کیے ۔ خیر یہ تلخیاں بانٹتی یادیں اور تنہائیاں چھڑکتی کہانیاں ہیں جن میں سے کچھ کچھ کہی جا چکیں اور کچھ کچھ کہی جاتی رہیں گی ۔کسی بھی خفیہ ایجنسی کے جری و جانباز اور سرفروش سپاہی اپنے ملک و قوم کے کان ،آنکھیں اور ہاتھ ہو اکیے ۔کان نہ ہوں تو سنائی نہ دے ،آنکھ نہ ہو تو دکھائی نہ دے اور ہاتھ نہ ہو تو کچھ پکڑائی نہ دے ۔یہ نہ ہوں تو کوئی بھی آرمی اندھی ،بہری اور گونگی ہو کر رہ جائے ۔ہر فوج اپنے سراغرسانی کے شعبے کی آنکھ سے دشمن کو دیکھتی،سمجھتی اور پرکھتی ہے ۔خطرناک اور خوفناک صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے اگر تدبیر کی جاتی اور چال چلی جاتی ہے تو انہیں جانثاروں کی تحقیقاتی و معلوماتی اطلاعات اور خبریات پر،جس طرح ایک غدار پوری قوم کو لے ڈوبے۔اسی طرح ایک محبِ وطن جاسوس پوری قوم کی ناو¿ پار لگادے ہے ۔فوج کو جسم قرار دیا گیا تو جاسوس کو کان ،آنکھ ،ناک ہاتھ،پاو¿ں کہا گیا ۔اور اس کے سربراہ کو دماغ کے لقب سے ملقب کیا گیا۔جنگیں فوجوں سے ضرور لڑی جاتی ہیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ لڑنے والے ذوقِ عزیمت اور شوقِ شہادت سے سرشار ہوں ،لیکن شکست و جیت کا دارومدار اورانحصار اعضا اور اعضائے رئیسہ پر ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں فوجیں کم اور جرنیلوں کے دماغ زیادہ لڑا کیے ۔عسکری تاریخ میں اعلیٰ ترین جرنیلوں میں ایک خوبی مشترکہ ملے ہے کہ.... وہی سالارِکارواں فاتح ٹھہرتا ہے جو لڑنا جانتا ہو اور لڑانا جانتا ہو۔آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی میں اصل کردار انہی جانبازوں کو اد اکرنا ہے جو نام ونمود سے الگ تھلگ زیرِ زمین کارنامے سر انجام دیتے ہیں۔جب ان کے کارنامے منظرِ عام پرآتے ہیں تو انسانی دماغ دنگ رہ جاتا ہے کہ خدایا !ذمہ داری اس طرح بھی ادا ہوتی ہے ۔ یہ الگ بات کہ ان کی ذمہ داری اور قربانیوں سے اکثر لوگ نا آشنا رہتے ہیں ۔جتنی بڑی ذمہ داری ہو اتنی بڑی قربانی مانگے ،جتنا اونچا منصب اتنا اونچامدبراور راستہ جتناکٹھن ہو رہنما بھی اتنا ہی کارآمداورکارگر چاہئے۔(جاری ہے )