نیا پاکستان اور ایک نوجوان کے سوالات
بہت سے پاکستانی نوجوان نئے پاکستان کے سحر میں مبتلا ہیں۔بعض تو ایسے بھی ہیں جو اس جادو کی چھڑی کی طرف دیکھ رہے ہیں، جس کا وجود کہانیوں میں تو ملتا ہے، لیکن حقیقی طور پر آج تک کسی کو نہیں مل سکی۔تاریخ کا تلخ سبق تو مسلسل ریاضت اور سخت محنت کا پیغام دیتا ہے۔محنت بھی ایسی جو ذاتی حرص و لالچ کی قیود کو بالائے طاق رکھ کر کی جائے اور کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کے حصول تک جاری رکھی جائے۔ خواہ اس کے لئے جان اور مال کی بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ نئی نسل کے ذہن میڈیا نے مسخر کئے ہوئے ہیں اور وہ دنیا جہاں کی چکاچوند کے جنت نظیر نظارے ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں، انہیں اپنے حقوق کا شعور اس حد تک ہو چکا ہے کہ دوسروں کے حقوق ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں، ایسی ایسی باتوں کو وہ بنیادی حقوق سمجھنے لگے ہیں، جن کا ماضی قریب میں تصور بھی محال تھا۔اسی طرح کے خیالات سے لیس ایک نوجوان اکثر میرے پاس آتا ہے، وہ نئے پاکستان کی تصویر مجھے اس طرح دکھاتا ہے کہ اس عمر میں بھی میرے جسم میں ایک انجانی توانائی عود آتی ہے اور میرا خوشی سے اچھلنے کو دل کرتا ہے۔ نیا پاکستان بھی میرے ذہن اور آنکھوں میں سما جاتا ہے۔ مَیں آنکھیں بند کر لیتا ہوں، جنہیں میں کھولنا نہیں چاہتا۔مَیں خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔میرا جسم لرزنے لگتا ہے اور مَیں آنکھیں کھولنے سے گھبراتا ہوں کہ آنکھیں کھولنے سے کہیں نیا پاکستان میری نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔وہ کون سی ایسی اچھائی ہے جو نئے پاکستان میں مجھے نظر نہیں آتی۔کوشش کرنے کے باوجود ایسی کسی برائی کا تصور بھی میرے ذہن میں نہیں آتا جو نئے پاکستان میں تلاش کی جا سکے۔مَیں چند ساعتوں کے لئے دیکھتا ہوں کہ پاکستان ،یورپ، برطانیہ اور امریکہ سے کئی گنا آگے بڑھ چکا ہے اور خوشحالی کے ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے ،جن کا ان ممالک کے شہری تصور بھی نہیں کر سکتے۔قصہ مختصر یہ کہ نیا پاکستان نہ صرف اس نوجوان کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے، بلکہ اس کی وجہ سے یہ میرے دل و دماغ پر بھی قابض ہو گیا ہے۔یہ مجھے بھی معلوم نہیں کہ یہ قبضہ جائز ہے یا اسے ناجائز قبضہ ہی تصور کیا جائے۔
چند روز بیشتر وہ نوجوان میرے پاس آیا تو وہ بہت جلدی میں تھا، وہ نئے پاکستان کے خدوخال کے بارے میں ایک تقریر سن کر آیا تھا۔اسے بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں انسانوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے۔وہ ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔وہ کہہ رہا تھا کہ نئے پاکستان میں انسانوں کے ساتھ جو سلوک ہوگا ، وہ اپنی مثال آپ ہوگا۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کے ساتھ کس طرح کا سلوک ہوتا ہے، تاکہ وہ اس کا موازنہ پاکستان میں انسانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے کر سکے۔مَیں نے نوجوان کو زبانی کلامی بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کے ساتھ بہت اچھا سلوک ہوتا ہے، لیکن اس نے اس طرح ماننے سے انکار کر دیا، وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے کسی ٹھوس قانون کے بارے میں بتایا جائے، تاکہ اس کی تسلی ہو جائے۔مَیں نے کافی غوروفکر کے بعد اسے اگلے روز آنے کا وعدہ کیا۔مَیں نے پالتو جانوروں کے بارے میں یورپین کنونشن کی اہم دفعات کا مطالعہ کیا۔اگلے روز نوجوان عین وقت پر آدھمکا تو مَیں نے اسے پالتو جانوروں کے بارے میں یورپین کنونشن کی چند دفعات کے بارے میں آگاہ کیا۔مَیں نے اسے بتایا کہ پالتو جانوروں کی حفاظت کے لئے یورپین کنونشن پر 1987ءمیں دستخظ ہوئے۔یکم مئی 1992ءسے اس کا اطلاق ہوا۔اس معاہدے کے آرٹیکل 3اور آرٹیکل 7کے مطابق پالتو جانوروں کو تکلیف نہیں دی جائے گی، انہیں کسی مشکل اور پریشانی میں نہیں ڈالا جائے گا اور انہیں رنج نہیں پہنچایا جائے گا، جانوروں کو بغیر سہارا اور مدد کے نہیں چھوڑا جائے گا۔جانوروں کو ایسی صورت حال سے دوچار نہیں کیا جائے گا، جو ان کی صحت اور فلاح و بہبود کے لئے نقصان دہ ہیں۔ اس کے بعد مَیں نے اسے اس یورپین کنونشن کے بارے میں بتایا جو فارم کے جانوروں کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا۔اس معاہدے کی دفعات بھی پہلے معاہدے سے ملتی جلتی تھیں۔نوجوان ان قوانین کے بارے میں معلوم کرکے بہت خوش ہوا۔نہایت اطمینان سے رخصت ہوا۔اس کے چہرے پر عجیب قسم کی خوشی اور طمانیت تھی۔ نوجوان کو خوش دیکھ کر مَیں بھی کافی خوش ہوا۔
اس کے بعد کافی دنوں تک اس نوجوان سے میری ملاقات نہیں ہوئی، لیکن تحریک انصاف کے ملتان والے جلسے کے اگلے روز وہ نوجوان اچانک میرے پاس آیا، وہ بہت پریشان دکھائی دے رہا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ ملتان والے جلسے میں کچھ نوجوان جاں بحق ہو گئے ہیں اور متعدد زخمی ہیں، اسے رنج یہ تھا کہ ملتان کے جلسے میں چند نوجوانوں کو جانوروں کی طرح بے ہوشی کی حالت میں سٹیج پر پھینکا گیا، اسے صدمہ اس بات کا تھا کہ نیا پاکستان بنانے والوں نے ان نوجوانوں کی جان بچانے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ یورپی ممالک میں اگر کوئی جانور بھی اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہو جائے تو اس ملک کے سربراہ مملکت تک اس کے بارے میں فکر مند ہو جاتے ہیں۔نوجوان مسلسل بولے جا رہا تھا۔وہ کہنے لگا کہ مسلمانوں کے لئے نماز سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے زیادہ مسلمانوں کو کوئی بات عزیز نہیں۔نماز فرض ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔نماز میں انسان کا اللہ تعالیٰ سے براہ راست رابطہ قائم ہوتا ہے، لیکن اگر نماز کی ادائیگی کے دوران کسی انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو نماز ختم کرنے اور انسان کی جان بچانے کا حکم ہے۔وہ کہنے لگا کہ مسلمانوں کے نزدیک ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کو بچانے کے عمل سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔اس نوجوان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ نیا پاکستان بنانے والوں نے نیم مردہ ان نوجوانوں کی جان بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی، حالانکہ مرتے ہوئے انسان کی جان بچانا قانونی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔مَیں کافی دیر تک خلاءمیں گھورتا رہا۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکہ مَیں اسے کیا جواب دوں۔میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس نے دوسرا سوال کر دیا۔کہنے لگا کہ آپ پالتو جانوروں کے بارے میں جس کنونشن کا ذکر کررہے تھے ۔کیا اسلام آباد میں دھرنا دینے والے انسانوں پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، مَیں دوبارہ لاجواب ہو گیا، مَیں نے جان چھڑانے کے لئے اسے کہا کہ ”ابھی نیا پاکستان نہیں بنا، اس لئے تم ابھی سے اس طرح کے سوالات نہیں کر سکتے“۔ مَیں محسوس کررہا تھا کہ میرے جواب سے اس کی تشفی نہیں ہوئی، لیکن اس کے سوا مَیں کیاجواب دے سکتا تھا۔