تارکین وطن کے مسائل کو حل کرناہماری اولین ترجیح ہے، خلیل احمد باجوہ
لندن(مرزا نعیم الرحمان) دیار غیر میں بسنے والے پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہے ہیں باہمی اتحاد واتفاق کی نادر مثالیں پیش کر کے ہی تارکین وطن کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔ تارکین وطن کے مسائل کو حل کرنا ہماری اولین ترجیح ہے اس مقصد کے لیے ہم اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہے ہیں ان خیالات کا اظہار بریڈ فورڈ قونصلیٹ کے قونصلر جنرل خلیل احمد باجوہ نے روزنامہ پاکستان سے خصوصی گفتگو میں کیا ۔ بریڈ فورڈ قونصلیٹ میں بائیو میٹرک پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کرنے کی سہولت سے برمنگھم ‘ مانچسٹر ‘ گلاسکو ‘ اور گردونواح کے لوگ بھر پور استفادہ حاصل کر رہے ہیں قونصلیٹ سے روزانہ 55اور 140کے قریب شناختی کارڈ جاری کیے جا رہے ہیں جبکہ چالیس کے قریب برٹش پاکستانی ویزہ حاصل کر رہے ہیں انہوں نے اپنے تعیناتی کے بعد قونصلیٹ کو عوامی خدمت کا ایک مرکز بنا دیا ہے عوام کی شکایت کا ازالہ فوری طور کیا جاتا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی قونصلیٹ سے صرف انہی لوگوں کو شکایات ہے جو قونصلیٹ میں داخل ہوتے ہی پاکستانی اور نکلتے ہی نظم و ضبط کے پابند ہو جاتے ہیں جبکہ ایسے افراد کو بھی ہم سے شکایت ہے جو غلط کوائف پر برطانیہ تو پہنچ گئے مگر جب انہیں پاکستانی پاسپورٹ یا شناختی کارڈ درکار ہوتا ہے تو صورتحال ہی تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے خلیل احمد باجوہ جو بریڈ فورڈ میں تعیناتی سے قبل انقرہ میں قونصلر جنرل تھے نے بتایا کہ ترکی میں تعیناتی کے دوران انہوں نے اسمگل ہو کر ترکی پہنچنے والے پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنے فرائض منصبی کے علاوہ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کیا ترکی میں صرف 2سو خاندان قانونی طور پر مقیم ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں مگر یورپ داخلہ کے خواہشمند غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد گنی نہیں جا سکتی ایران کے راستے ترکی پہنچنے والے تارکین وطن کی اکثریت شدید سردی اور دشوارگزار راستوں کی وجہ سے اپنے جسمانی اعضا سے محروم ہو چکے ہوتے ہیں بعض کردوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں جو ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو انہیں دہشت زدہ کر کے ان کے لواحقین سے بھاری تاوان مانگا جاتا ہے ترکی میں ترک اتھاڑٹیز ان کے ساتھ بڑے پیار سے پیش آتے ہیں اور پاکستانی سفارت خانہ اور قونصلیٹ کے تعاون سے انہیں واپس بجھوایا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ صرف دس فیصد مہاجرین یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں باقی پکڑے جاتے ہیں یا پھر مر جاتے ہیں انہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ وہ انسانی اسمگلروں کا شکار نہ بنیں جو خدا یورپ میں ہے وہی پاکستان میں حاصل ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قونصلیٹ کا عملہ مختلف شہروں میں کیمپ لگا کر لوگوں کے شناختی کارڈ بناتا ہے ہر ماہ میں چار شہروں کا انتخاب کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں حکومت نے چار ہزار کے قریب ایسے کالجز کو بند کر دیا ہے جو تعلیم کی بجائے دوکانداری کر رہے تھے مگر بدقسمتی سے متاثر ہونے والے ہزاروں طالبعلموں کی ہزاروں پاﺅنڈز فیس بھی لٹ گئی اس سنگین ترین مسئلہ پر ہائی کمیشن اور ہم ایک ایسے حل کے لیے کوشاں ہیں جس میں برطانیہ تعلیم کے حصول کے لیے آنے والے طالبعلموں کی فیس او ر مستقبل محفوظ ہو انہوں نے انکشاف کیا برطانیہ سے تقریبا 500تارکین وطن کو ویزے جاری کیے جاتے ہیں ویزہ کے حصول کے لیے ایک کورئیر کمپنی کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں جو فی کس 96پاﺅنڈ فیس وصول کرتی ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ دہشت گردی کے موجودہ دہشت گردی کے دور میں پاکستان کا تشخص بحال کرنے کی ذمہ داری سفارتکاروں کے علاوہ تارکین وطن پر بھی عائد ہوتی ہے ہم سبھی ملکر پاکستان کا کھویا ہوا تشخص بحال کر سکتے ہیں اور دنیا کو یہ بتانا ہو گا کہ ہم دہشت گر د نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہیں دہشت گردی نے پاکستانی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے مگر دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ایک ترقی پذیر ملک پاکستان نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ عالمی طاقتوں کو بھی حاصل نہیں ہوئیں ضرب عضب میں پاک فوج کی کامیابی اس امر کی غماذی کرتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ہے عالمی طاقتوں کو بھی اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان کی معیشت کو جتنا دہشت گردی نے نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں انہوں نے کہا کہ اب دنیا کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف قابل قدر قربانیاں نہ دیتا تو شاید عالمی دنیا ملکر بھی اس کی اصلاح نہ کر سکتی پاکستانی ایک باوقار قوم ہیں اور ہمیں ایک باوقار قوم کی طرح فیصلے کرنا ہونگے اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی سفارتکاروں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ہمیں تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق فیصلے کرنا ہونگے۔
اور اس امر کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے ہمسائیہ ممالک کی نسبت پاکستان زیادہ مسائل کا شکار ہے اور قائد اعظم کے اقوال زریں کے مطابق کام ‘ کام ‘ اور کام ‘ پر عمل کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم ایک جفاکش قوم ہے جتنی محنت پاکستانی قوم کر سکتی ہے اتنی کوئی اور قوم نہیں کر سکتی دیار غیر میں رہتے ہوئے وہ اپنا آرام اور سکون سب کچھ بھول جاتے ہیں اپنے والدین اور اہل خانہ کی کفالت بہتر انداز سے کرنے کے لیے وہ ایسی ایسی داستانیں رقم کرتے ہیں جن پر غیر ملکی بھی ششدر رہ جاتے ہیں اندرون ملک بھی پاکستانی نوجوانوں کو اتنی ہی محنت کرنی چاہیے جتنی وہ باہر آ کر کرتے ہیںتو آج پاکستان ترقی پذیر نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملک ہوتا دوسروں کے حقو ق غضب کرنے کی بجائے ان کے حقوق دینا ہی ایک مسلمان کی آن اور شان ہوتے ہیں اسلام کے زریں اصولوں کو غیر ملکیوں نے اپنایا اور آج ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر بعض قومیں دنیا میں اپنا نام پیدا کر چکی ہیں ہم نے جب بھی ان اصولوں کو نظر انداز کیا تو مسائل کا شکار ہو گئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے قول و فعل میں تضاد کو دور کریں باہمی محبت و یگانگت ہی ہمیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہے انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان پاکستان کا سرمایہ ہیں وہ ملک چھوڑنے سے پہلے پاکستان میں ہی کام کاج کرنے کی کوشش کریں اور غیر ہنر مند افراد ملک چھوڑنے سے پہلے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لیں تو اس سے ان کی زندگی میں طلسماتی تبدیلیاں واقع ہو سکتی ہیں۔