پیپلز پارٹی اور متحدہ کے ارکان کی ایک دوسرے کیخلاف دھواں دھار تقاریر ،ایم کیو ایم کا بائیکاٹ
کراچی(خصوصی رپورٹ)سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی والوں کی ایک دوسرے کے خلاف تقریریں، ایم کیو ایم نے وزیروں مشیروں کے استعفے بھجوادیئے، اپوزیشن کی نشستیں الاٹ کرنے کے لےے بھی درخواست دے دی ،اسمبلی سے واک آوٓٹ جبکہ سندھ اسمبلی نے سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2014ءکی منظوری دے دی جس کے تحت بلدیاتی حلقوں کی حد بندیوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیئے گئے ۔تفصیلات کے مطابق شرجیل میمن نے کہا ہے کہ بیس سال سے ایم کیو ایم حکومت میں ہے، ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران پکڑا جانے والا ہر ملزم سرکاری ملازم نکلتا ہے۔ایم کیوایم کے رہنماخواجہ اظہار الحسن نے جواب دیا کہ بدعنوانی اور بد نیتی میں حصہ دار نہیں بن سکتے ہیں اب حساب نہیں، حساب کتاب ہوگا، ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ خود کہتے ہیں کہ ان پر بتیس مقدمات ہیں ،تو کیا وہ بھی ٹارگٹ کلر ہیں ؟۔ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والی تازہ ترین ناراضی کےباعث سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بھی الزامات اور تنقید کے نشتر بھی چلائے گئے۔وزیر اعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ سندھ میںکوئی تفریق ہو، کراچی کو 26 ارب کا ضمنی بجٹ دیا ،لیکن کراچی میں اربوں روپے کےپروجیکٹ اب تک کیوں مکمل نہیں ہوئے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں کتنے لوگ بھرتی کیئے گئے۔قائم علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں کئی مرتبہ ہڑتالیں کی گئیں لیکن پیپلز پارٹی نے ایک جلسہ کیا اس پر بھی تنقید کی گئی، اگر کوئی ظلم کی بات کرتا ہے تو پیپلز پارٹی سے زیادہ کسی نے بھی ظلم نہیں سہے، موجودہ حکومت کو قائم ہوئے 14 ماہ ہوئے ہیں لیکن ہم تو روٹھنے والوں کو منانے میں ہی لگے ہوئے ہیں، ہم نے سندھ میں ترقی کے لئے سب کو گلے لگایا اور اب بھی سب کو گلے لگانا چاہتے ہیں۔سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہمارے سوال کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ، وقت آگیا ہے کہ حکومت پہلے دیہی سندھ کو ترقی دے، انہوں نے نثار کھوڑو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لاڑکانہ کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ایم کیو ایم نے لفظ مہاجر کو گالی قرار دینے پر قومی اسمبلی سے بھی واک آوٹ کیا،ایم کیو ایم کے راہنما رشیدگوڈیل نے کہا کہ مہاجروں کو گالی دینے پر جب تک معافی نہیں مانگی جاتی ایوان میں نہیں آئیں گے،قومی اسمبلی میں احتجاج کرتے ہو ئے رشید گوڈیل کا کہنا تھا کہ ہجرت کوئی گالی نہیں،ایسا کرنے والوں پر توہین رسالت کا قانون لاگوہونا چاہیے،ہجرت سنت رسول ہے،یہ مکہ سے مدینہ کی گئی،یہاں پر کیسے عناصر ہیں جو مہاجروں کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں،مہاجر ننگےبھوکے نہیں آئے تھے،اپنا بھرا گھربار چھوڑ کرہجرت کرکے آئےتھے،ہم کہتے ہیں کہ سندھ کسی کی جائیداد یا جاگیر نہیں،متروکہ املاک مہاجروں کی ہیں،لیکن عوام کو بھوک،کفن اور قبر ہی ملی۔بھارت نے بھی آزادی کے بعد نئے صوبے بنائے،بھارت میں کسی نے نہیں کہاکہ یہ ہماری ماں ہے،تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لیے سندھ اسمبلی نے سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2014ءکی منظوری دے دی جس کے تحت بلدیاتی حلقوں کی حد بندیوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیئے گئے ۔پہلے یہ اختیارات صوبائی حکومت کے پاس تھے ۔اس بل کے تحت سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013میں ترمیم کی گئی ہے اور ایکٹ کے سیکشن 32سے پہلے سیکشن 31اے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔اسی طرح سیکشن 18کے بعد 18اے اور سیکشن 36میں سب سیکشن 36(1)کا اضافہ کیا گیا ہے ۔نئے سیکشن 31اے کے مطابق الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یونین کونسلز ،یونین کمیٹیز اور وارڈز کی حد بندی کرے ۔میونسپل کمیٹیز ،ٹاو¿ن کمیٹیز اور کارپوریشنز کی حدود یعنی شہری علاقوںمیں وارڈ ایک سینسس بلاک یا ملحقہ سینسس بلاکس پر مشتمل ہوگی ۔اسی طرح ایک یونین کونسل ،یونین کمیٹی یا وارڈ ایک مکمل دیہہ یا اس کے حصے ،ایک سینسس بلاک یا ملحقہ دیہات کے اشتراک یا سینسس بلاک پر مشتمل ہوں گے ۔سیکشن 32میں ”حکومت“ کی جگہ ”الیکشن کمیشن“ کا لفظ شامل کیا گیا ہے ۔سیکشن 36میں شامل کیے گئے نئے سب سیکشن 36(1)کے مطابق الیکشن کمیشن کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی لوکل کونسل کے الیکشن کے لیے امیدوار یا کسی کونسل کے متنخب رکن یا عہدیدار کو ایکٹ کی خلاف ورزی پر چار سال کے لیے نااہل قرار دے دے ۔شامل کیے گئے نئے سیکشن 18اے کے مطابق سیاسی جماعتوں کو یونین کونسل اور یونین کمیٹی کے سوار دیگر کونسلز کی خواتین ،کسانوں ،مزدوروں اور اقلتیوں کے لیے مخصوص نشستوں پر الیکشن کے لیے اپنے امیدواروں کی ترجیحی فہرست کاغذات نامزدگی کی تاریخ کے اندر جمع کرائیں گی تاکہ کسی امیدوار کی موت ،استعفیٰ یا نااہلی کی وجہ سے اس کی سیٹ پر ترجیحی فہرست کے مطابق دوسرے امیدوار کو منتخب رکن قرار دیا جائے گا ۔ترجیحی فہرست میں شامل امیدواروں کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ ریٹرننگ افسروں کے پاس کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی کی ترجیحی فہرست ،قانون کے مطابق ڈکلیئریشن اور اسٹیٹمنٹ اور مقررہ فیس بھی جمع کرائیں ۔
سندھ اسمبلی