دائیں بازوں کی عسکریت پسندی کی حمایت پاکستانی سیاست کیلئے نیا خطرہ ہے؛ فرحت اللہ بابر
اسلام آباد(آئی این پی)©پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماءسینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ملک میں عسکریت پسندی کے فروغ کی دائیں بازو اور اسلام پسند حمایت کر رہے ہیں ، یہ پاکستان کی سیاست کےلئے ایک نیا اور نہایت ہی خطرناک عنصر ہے ، یہ رویہ ریاست اور معاشرے کی ناکامی ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فتح کے لئے بہت ضروری ہے کہ اس رویے کو درست کیا جائے ، جب تک کہ ریاستی پالیسیاں عسکریت پسندوں کے تناظر سے نہیں نمٹتیںصورتحال بہتر نہیں ہوسکتی ، ملکی خارجہ اور دفاعی پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کےلئے کچھ عسکریت پسندوں کے استعمال کا تاثر ختم کرنا ہوگا، حالت یہ ہے کہ ایک مذہبی سیاسی پارٹی کے سربراہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جاں بحق ہونے والوں کو شہید نہیں تو دوسری مذہبی سیاسی پارٹی کے سربراہ کہتے ہیں کہ چاہے امریکہ کے خلاف لڑتے ہوئے کتا مر جائے تو وہ بھی شہید ہوتا ہے ۔ وہ پیر کو یہاں مقامی ہوٹل میں عسکریت پسندی کے پہلوﺅں پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے منعقد کرائے جانے والے ایک سیمینار سے خطاب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ جب بہت سارے لوگ اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ مغرب نے ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام اس لئے دیا ہے کہ وہ ملالہ کو اسلام کے خلاف جنگ میں ایک مہرے کے طور پر استعمال کر سکے تو پھر یہ صاف ظاہر ہے کہ عسکریت پسندوں کا بیانیہ کامیاب ہو رہا ہے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ چار ستونوں پر کھڑی ہے یعنی جہاد، علاقے میں امریکی اور غیرملکی فوجیوں کے خلاف ہے، یہ ڈرون حملوں کے خلاف ہے اور یہ امریکہ کی جنگ ہے پاکستان کی نہیں۔ یہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دانشوارانہ ابہام موجود ہے اور پاکستان کی ریاست اور بین الاقوامی برادری نے اس آئیڈیالوجی کے ابہام کو تقویت دی ہے۔ پاکستانی ریاست نے اس وقت اسے تقویت دی جب جنرل ضیا نے جہاد کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر اپنایا اور فوجیوں کے لئے رسمی طور پر ایمان، تقویٰ ، جہاد فی سبیل اللہ کو اپنا موٹو بنایا۔ بین الاقوامی برادری نے اسے ایسے تقویت دی کہ صدر ریگن نے آٹھ مجاہدین لیڈروں کو جارج واسنگٹن کا ہم پلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ آسان ہے لیکن اس مائنڈ سیٹ کے خلاف نگ انتہائی مشکل ہے۔ ہم اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ کئی ماہ قبل نیشنل سکیورٹی پالیسی کا اعلان کرتے وقت کہا گیا کہ دہشت پسندوں کی ایک بڑی تعداد مدارس کے طلبا پر مشتمل ہے جہاں انہیں برین واش کیا جاتا ہے اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لئے کہا جاتا ہے اور یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ 23ہزار مدارس کو ایک سال کے اندر مین اسٹریم تعلیمی نظام میں شامل کیا جائے گا لیکن نیکٹا کے لئے ایک روپیہ بھی 2014ءکے بجٹ میں مختص نہیں کیا گیا۔ یہ سوالات اس وقت بھی اٹھتے ہیں جب پنجابی طالبان کے لیڈر عصمت اللہ معاویہ پاکستان کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ان کی بندوقوں کا رخ افغانستان کی جانب ہوگا لیکن ریاست مکمل طور پر خاموشی اختیار کرتی ہے۔