اوکاڑہ میں کیا ہوا؟
اوکاڑہ میں کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ اس پر میں بھی ضمنی انتخاب کے فوراً بعد لکھنا چاہتا تھا۔ اوکاڑہ کی قومی سیاست میں جو اہمیت ہوئی اس پر مجھے بھی خوشی ہونی چاہیے تھی۔ اس خوشی کا اظہار کرنے کے لئے لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ مجھے احساس ہو گیا کہ یہ معاملہ شہرت کا نہیں بدنامی کا ہے۔ مَیں نے اوکاڑہ سے بے وفائی کرکے لاہور کو ہی اپنا شہر بنا لیا تھا اور اب لاہور بھی ہاتھوں سے جاتا رہا، لیکن شہر میں اور اس کے آس پاس میرا بچپن اور لڑکپن گزرا ہے۔ میرے والدین دنیا میں نہیں رہے، لیکن میرا خاندان اب بھی وہاں آباد ہے۔ مَیں ننگے پاؤں اس کی گلیوں میں اچھلتا کودتا بھاگتا اور مزے کرتا رہا ہوں۔ میں پاؤں کے تلوے رگڑوں تو اس شہر کی مٹی کے کچھ نشان شاید آج بھی ان میں سے برآمد ہو جائیں۔اوکاڑہ شہر کی دو صوبائی نشستیں پہلے ہی میرے دو قریبی عزیزوں کے پاس تھیں اور اب قومی اسمبلی کی نشست بھی میرے ایک اور خونی رشتے کے پاس چلی گئی۔ صوبائی پارلیمانی سیکرٹری میاں منیر میرا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ صوبائی وزیرآبپاشی میاں یاور زمان میرا رشتے کا بھتیجا اور اب قومی اسمبلی کا نو منتخب رکن ریاض الحق میرا رشتے کا بھانجا ہے۔ عارف چودھری یا اس کا بیٹا رشتے دار نہیں، لیکن ان کا بھی وسیع تر ارائیں برادری سے تعلق ہے۔
مَیں نے لکھنے سے ہاتھ اس لئے کھینچا تھا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ اس انتخاب میں کامیابی کے لئے نقدی کے لفافے تقسیم ہوئے تو مَیں رسوائی کا باعث بننے والی اس سچی بات کو نشر کرنے کا الزام نہیں لینا چاہتا تھا۔ اوکاڑہ میں ’’ڈان‘‘ کے نمائندے محمد حنیف نے یہ سب کچھ کھل کر رپورٹ کرکے میری مشکل آسان کر دی۔ دولت کے زور پر انتخاب جیتنے کی بات اوکاڑہ کی گلیوں سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گئی تو اب میں کیا کر سکتا تھا۔ اوکاڑہ میں جس جس کو بھی فون کیا سب نے اس کی تصدیق کی اور اپنے اپنے انداز میں اس میں اضافہ کیا۔میرا اپنا تو کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے، لیکن میرے خاندان کے سبھی اہم لوگ نون لیگ سے وابستہ ہیں۔ دولت کے استعمال کی تصدیق کے بعد میرا ویسے ہی تجسس تھا کہ کیا ایسا تونہیں ہوا کہ میرے عزیز صوبائی اسمبلی کے ارکان نے اندرون خانہ قومی اسمبلی کے جیتنے والے آزاد امیداور کی حمایت کر دی ہو۔ میرے شبے کا سبب یہ تھا کہ اوکاڑہ میں نون لیگ کے اتنے بڑے ووٹ بنک کی موجودگی میں یہ تبدیلی کیسے واقع ہوئی۔ سیاست میں سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن مجھے سچائی معلوم کرنی تھی۔ میرے لئے سب سے معتبر گواہیاں اوکاڑہ شہر میں میرے چھوٹے بھائی سلطان اور چک 48تھری آر میں میرے لاڈلے رشتے کے بھانجے ناصر کی تھیں۔ یہ چک وہ ہے جہاں میرے والد مرحوم کی نمبرداری تھی جنہوں نے شہر میں رہنے کی وجہ سے اپنے چھوٹے بھائی کو سربراہ نمبردار بنا رکھا تھا۔
ہمارے ککہ کڑیالہ سے تعلق کی بناء پر کڑیالوی خاندان کے ساتھ بھگو پورہ سے تعلق رہنے کی بناء پر ریاض الحق کے دادا فضل دین بھگو پوری کی زمین اور آبائی گھر بھی اسی گاؤں میں ہے۔ میرے بھائی اور بھانجے نے ایک طرح سے حلفاً یہ کہا کہ میاں منیر اور میاں یاور زمان نے عارف چودھری کے بیٹے کے لئے دن رات محنت کی اور پورے خلوص سے اس کی انتخابی مہم چلائی۔ میرے اطلاع کنندہ حیران تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ سب جو ہوا ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ دولت کی تقسیم ایک اہم فیکٹر ضرور تھا لیکن واحد فیکٹر نہیں ہے۔ اوکاڑہ میں نون لیگ کے مقامی لیڈروں کا مَیں بتا چکا ہوں۔ ان کی مہم اثر انگیز کیوں نہیں ہوئی، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اس جماعت کے کارکنوں اور ہمدردوں کو ایک غلط پیغام ملا ہوا تھا۔ عمران خان اپنے کمزور امیدوار کی حمایت کے لئے اوکاڑہ آیا، لیکن نون لیگ کی مرکزی قیادت سے کسی کو اوکاڑہ رجوع کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، جس سے یہ تاثر مضبوط ہو گیا کہ مرکزی قیادت نے اس سیٹ کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔ اوکاڑہ میں یہ سرگوشی بھی آہستہ آہستہ پھیل رہی ہے کہ وزیراعلیٰ کے خاندان کو اس خاموشی کی قیمت ادا کی گئی تھی، لیکن اس افواہ کی میرے پاس کوئی تصدیق نہیں ہے۔اوکاڑہ میں ریاض الحق کی کامیابی پر خوشی کے میرے ذاتی پہلو کے علاوہ سیاسی پہلو یہ ہے کہ اس نوجوان کا روایتی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔ اجارہ داریاں توڑنے کی طرف یہ ایک مثبت تبدیلی قرار پاتی، اگر دولت کی تقسیم کا فیکٹر اس میں شامل نہ ہوتا۔ بھگوپوری خاندان کے دولت مند بننے کی داستان مثالی اور دلچسپ ہے، لیکن کاش اس میں دولت کے انتخابی استعمال کا باب شامل نہ ہوتا۔
فضل دین بھگوپوری کی اوکاڑہ کے صدر بازار میں پتھروں کی اشیاء کی چھوٹی سی دکان ختم ہوئی، جہاں ان کے بڑے بیٹے محمد رفیق نے کریانے کی پرچون اور پھر تھوک دکان چلائی۔ یہ کاروبار پھیلتا گیا۔ بالآخر وہ چینی کے بہت بڑے سوداگر بن گئے اور پھر انہوں نے بناسپتی گھی کا کارخانہ لگایا اور بعد میں ہارڈ بورڈ کی فیکٹری لگائی۔ میری پھوپھی زاد بہن آپا صغریٰ کے شوہر بھائی رفیق اس صنعتی اور تجارتی کاروبار کے اکیلے مالک نہیں ہیں، اس میں ان کا پورا خاندان حصہ دار ہے، جن میں ان کے بھائی اور بھتیجے بھی شامل ہیں۔ ان پچیس تیس حصہ داروں میں ایک ریاض الحق بھی ہے جو رفیق بھائی کے چھوٹے بھائی ظفر کا بیٹا ہے، تاہم سیاسی یا انتخابی مہم کے لئے پورے خاندان کا مشترکہ فنڈ استعمال ہوتا ہے۔اوکاڑہ کے ضمنی انتخاب کے نتائج کی وجہ سے بدلتی ہوئی سیاست کا جو نیا رخ سامنے آیا ہے وہ پورے ملک کی سیاست کا ایک لٹمس ٹیسٹ بھی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں کرپشن کی کہانیوں کا عام شہریوں میں چرچا ہے۔ بنیادی سہولتوں کا بجٹ بدعنوانی کے فلٹر میں سے گزر کر نچلی سطح پر برائے نام رہ جاتا ہے۔ بددلی اور بیزاری اپنے اظہار کے لئے بے چین ہے۔ راؤ سکندر اقبال مرحوم اور اپنے دوست رانا اکرام ربانی کے دور میں پیپلزپارٹی کا اوکاڑہ میں عروج تھا۔ میاں منظور وٹو جیسے سیاسی مسافر کی قیادت میں اب اس کا مکمل جلوس نکل چکا ہے۔ ویسے بھی ایک صدی سے زائد عرصے سے اوکاڑہ شہر اور اس سے ملحق تحصیل اوکاڑہ کی پٹی جو دریائے راوی سے جا ملتی ہے ، اس خطے کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔ منظور وٹو کا دیپالپور سے تعلق ہے، جسے اوکاڑہ کے اس سیاسی مرکز میں کوئی پوچھتا نہیں ہے۔
جماعت اسلامی یہاں کی بدستور منظم جماعت ضرور ہے،لیکن وہ سیٹ حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ صرف ایک مرتبہ راؤ خورشید علی خان کو جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر اوکاڑہ شہر کی صوبائی اسمبلی کی نشست ملی تھی۔ میرے والد میاں شاہ دین مرحوم نے پہلی اور آخری مرتبہ ان کی حمایت میں اپنا ذاتی اثرو رسوخ استعمال کیا تھا۔ انہوں نے شہر کے عین مرکز میں اپنے تین منزلہ گھر کا پورا گراؤنڈ فلور ان کا انتخابی ڈیرا بنا دیا، جہاں پوری مہم کے لئے خوردونوش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ انتخابی فنڈ فراہم کرنے کے علاوہ انہوں نے ارائیوں اور راجپوتوں اور خاص طور پر راؤ برادری کو ان کے پیچھے یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
کنونشن لیگ کے دور میں رانا اکرام ربانی کے والد رانا غلام صابر مرحوم اوکاڑہ شاخ کے سربراہ تھے۔ نون لیگ کے قیام کے بعد میاں محمد زمان نے اوکاڑہ میں اس کا پرچم بلند کیا جو اپنی صحت کے سبب عملاً ریٹائر ہو چکے ہیں، تاہم خاندان کے دیگر افراد مسلسل اس میں سرگرم ہیں جن میں میاں منیر پیش پیش ہیں، جنہیں پارٹی کی حمایت برقرار رکھنے کے چیلنج کا سامنا ہے، تاہم بددلی کے شکار افراد بغاوت پر تلے نظر آتے ہیں۔تحریک انصاف نے باقی پنجاب کی طرح اوکاڑہ میں بھی اپنا اثرورسوخ پیدا کیا ہے، لیکن پیپلزپارٹی سے نووارد اشرف سوہنا کو شاید اس پارٹی کے حامیوں نے قبول نہیں کیا۔ اوکاڑہ میں بڑی پارٹیوں سے نالاں لوگوں کو تحریک انصاف بھی متبادل جماعت نظر نہیں آتی۔ کوئی اور بہتر متبادل آیا تو بیزار شہری اس طرف کا رُخ کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ توقع ہے ریاض الحق نون لیگ میں شامل ہوگا، جس کے بعد نون لیگ سے بغاوت کرکے اسے ووٹ دینے والوں میں ایک نئی بددلی پیدا ہونے والی ہے۔ اس وجہ سے آئندہ انتخابات میں اوکاڑہ میں مزید اپ سیٹ ہو سکتے ہیں۔ *