پاکستان میں بچوں کی ابتدائی تعلیم
ابتدائی بچگانہ تعلیم اگرچہ ایک نئی اصطلاح ہے مگر یہ تمام پالیسی بنانے والے پبلک، پرائیویٹ اور دیگر حلقوں میں اپنے فوائد اور اہمیت کی وجہ سے مقبول ہو رہی ہے۔ بچے کی زندگی میں ابتدائی چند سال بہت ہی اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس میں بچے کی جسمانی، ذہنی اور انفرادی نشوونما بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ یہ چند سال بچے کی تمام زندگی پر محیط صلاحیتیں اور علم سیکھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جو بچے ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں عام بچوں کی نسبت پرائمری، مڈل اور میٹرک لیول پر اچھے نتائج حاصل کرتے ہیں اور ان کی سکول چھوڑنے کی شرح بھی بہت کم ہوتی ہے۔عام طور پر ابتدائی تعلیمی پروگرام کا دورانیہ پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے مگر مختلف ماہرین کے مطابق ہر آٹھ سال تک جاری رہتا ہے۔ تین سال کا عرصہ عام طور پر والدین پر انحصار کرتا ہے جس میں بچے کی صحت، خوراک اور سماجی تعلقات پر توجہ دی جاتی ہے۔ (3-5) سال میں ایسی صلاحیتیں سکھائی جاتی ہیں جو کہ بچے کی دماغی، جسمانی اور سماجی صلاحیتوں کو ابھارتی ہیں اور ان کو اگلے درجے کی تعلیم کے لئے تیار کرتی ہیں۔ جیسا کہ اسی دورانیئے میں پرائمری تعلیم کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
ابتدائی تعلیم بچے کے ذہنی و جسمانی مسائل پر قابو پانے میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اگر ابتداء میں ہی بچے کو نظر میں رکھ کر اس کی کمیوں پر قابو پانے کے لئے مناسب توجہ اور اقدامات کئے جائیں تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا ہے جیسا کہ کوئی معذوری یا پھر عمومی مسائل۔ کیونکہ اگر مناسب وقت پر ان پر قابو نہ پایا جا سکے تو پھر یہ بچے کی تمام صلاحیتوں پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں اور وقت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔پاکستان نے بین الاقوامی طور پر تعلیم پر کئے جانے والے تمام معاہدوں پر دستخط کئے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر، اقوام متحدہ کا بچوں کے حقوق پر کنونشن (1989) ای ایف اے (1990) تعلیم سب کے لئے اور اس کے بعد ڈاکار کا تعلیمی فورم (2000) جن کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ لٹریسی کی بجائے بچے کو اپنے آپ کے اظہار اور کام کرنے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل حل کرنے اور اپنی مہارتیں، علم و روایات اور رویئے سیکھنے کے قابل بنایا جا سکے۔
قومی طور پر قیام پاکستان سے لے کر تمام پالیسیوں پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں ابتدائی تعلیم کا حصہ واضح نظر آتا ہے۔ 1947ء کی تعلیمی کانفرنس میں نرسری کو لازمی جز قرار دیا گیا۔ (1950-1980) تک کچی کلاسوں کو ابتدائی تعلیمی شکل دی گئی۔ 1998ء کی پالیسی میں ابتدائی بچگانہ تعلیم کی ضرورت پر منصوبے بنائے گئے (2001-2015) میں ابتدائی بچگانہ تعلیم کو ایجوکیشن فار آل کے مقاصد کے مطابق ایک مکمل منصوبہ بنایا گیا جس میں سرمایہ کاروں سے فنڈز اکٹھا کرنے اور نجی حلقوں کو متحرک کرنے کی تجویز دی گئی۔ 2002ء میں ابتدائی بچگانہ تعلیم کا نصاب تیار کیا گیا۔ 2001-2004ء میں تعلیمی سیکٹر پروگرام میں ابتدائی بچگانہ تعلیم کو رائج کرنے کے لئے ایک منصوبے کے طور پر لیا گیا 2002ء میں ابتدائی بچگانہ تعلیم کا نصاب بنایا گیا اور 2007ء میں ریوائز کیا گیا۔ابتدائی بچگانہ تعلیم 2007ء کے نصاب کے مطابق اس کا مقصد بچے میں تنقیدی سوچ پیدا کرنا، برداشت اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا، خود میں پہچان اور پاکستانی ہونے کا فخر، اسلام اور اسلامی معاشرے کا علم اور سمجھ بوجھ، دوسرے مذاہب کو ماننا اور ان کے عقائد کی عزت، ملک معاشرے اور دنیا کو بہتر کرنے کی ذمہ داری، خود مختاری، اپنی سمجھ بوجھ اور خود کو مثبت پہچان، تمام زندگی کی مہارتیں سیکھنا، سیکھنے کے لئے مواقع اور خود کو متحرک کر کے کھیلنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔اگر ہم پاکستان کی منصوبہ بندی اور پالیسیوں کو دیکھیں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ تمام ادارے اور ذمہ دار افراد اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ مگر جب ہم حقائق پر نظر دوڑاتے ہیں تو پاکستان کی آبادی اس وقت 18, 88, 07, 729 ہے۔ جبکہ 50.8% آدمی اور 49.2% عورتیں ہیں۔ جس میں سے 56% آبادی پنجاب کی ہے۔ جبکہ پنجاب میں 3.8 ملین لوگ ان پڑھ ہیں۔ صرف 4 اضلاع میں خواندگی کی شرح 70% ہے۔ سندھ میں یہ 50% سے بھی کم، خیبرپختونخوا میں 50% اور بلوچستان میں تو یہ شرح نہایت ہی کم ہے۔ اس طرح کل ملا کر 55% ملا کر خواندگی کی شرح ہے۔
اس شرح میں سے جب ہم ابتدائی بچگانہ تعلیم کی بات کرتے ہیں تو 19 ملین بچے (5-9) کی عمر کے درمیان ہیں، جن مین سے 45% اپنی پرائمری تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ جن میں سے 90.7% بچے جو کہ تین سال عمر میں ہیں وہ سکول سے باہر ہیں۔ جبکہ ابتدائی سال (3-5) کو دیکھیں تو پنجاب میں 50% بلوچستان 78% ، خیبر پختونخوا 65% اور سندھ میں 61% بچے سکول سے باہر ہیں۔ یہ رپورٹ پرائیویٹ سروے کی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کا اندازہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔جو بچے سکولوں میں جا رہے ہیں ان میں بھی زیادہ ابتدائی تعلیم کا مقصد بچوں کو کلاس اول کے لئے تیار کرنا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں بچے زیادہ تر ماں باپ کے ساتھ کام کرواتے ہیں، ان کے لئے پڑھنے سے بہتر کھیتوں میں کام کرنا ہے۔ غریب لوگوں کے لئے تعلیم کا صرف ایک ہی مقصد بچے کو کچھ کمانے کے قابل بنانا ہے۔ شہری علاقوں میں کچھ تصور بدلاہے اور والدین اب بچوں کی تعلیم کے لئے فکر دکھاتے ہیں۔ مگر لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میں اب بھی فرق کیا جاتا ہے۔پرائیویٹ سکولوں میں صورتحال کچھ بہتر ہے۔ بچوں کی مختلف سرگرمیوں سے بھرپور تعلیم دی جاتی ہے۔ کچھ جدید شہروں میں کنڈر گارٹن اور مونٹیسوری کا نظام بھی موجود ہے۔ مگر ان کی فیس عام انسان نہیں دے سکتا۔ گورنمنٹ سکول میں فیس کم ہے مگر ان میں معیار تعلیم بہت نچلے درجے کا ہے۔ تربیت یافتہ عملہ کی کمی، سہولتوں اور بنیادی ڈھانچہ کا فقدان ہے۔ جن جگہوں پر یہ سہولیات میسر ہیں وہاں اساتذہ کا رویہ تعلیم دینے والا نہیں۔ اگر ہم عام بچوں کو ابتدائی بچگانہ تعلیم دے کر ان کے مسائل ختم نہیں کر سکتے تو پھر پاکستانی معذور بچے جو کہ تعداد کے لحاظ سے 2.43% کل آبادی کا حصہ ہیں ان کے مسائل کی ابتدائی روک تھام کیسے ہو گی۔
پاکستان میں ابتدائی تعلیم کو ہنگامی بنیادوں پر رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے لوگوں کو بہت زیادہ آگاہی دینی ہو گی۔ ابتدائی تعلیم کے لئے ایسا نصاب بنانے کی ضرورت ہے جو بچے کی تمام ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ دیہی اور شہری علاقوں پر برابر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو تربیت، مناسب بلڈنگ، وسائل اور فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ تاکہ لوگوں کو آگاہ کیا جا سکے۔ ابتدائی بچگانہ تعلیم کو محلوں، سکولوں اور مدرسوں تک کی سطح پر لے کر آنا چاہئے، کیونکہ پاکستانی معاشرے میں مدرسہ اور مسجد بچے کی ابتدائی شخصیت کو بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ نجی اور سرکاری، پالیسی بنانے والے اور سرمایہ کار اس پہلو کا بڑا رخ دیکھیں اور ایسی حکمت عملی بنائیں کہ ابتدائی بچگانہ تعلیم کو عام سطح پر شروع کیا جا سکے۔ یہ ہر شہری، والدین، بچوں اور عام لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ سرکار کو یہ پروگرام شروع کرنے پر متحرک کریں۔ کیونکہ اس میں تاخیر نہ صرف بچے کی چھپی ہوئی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ضائع کر دے گی بلکہ پاکستان کو پر امن اور پیداواری ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشی طور پر بھی مضبوط نہیں ہونے دے گا۔ *