فعال سفارتکاری :مودی کی پسپائی

تدبیریں الٹ گئیں، چالیں اور سازشیں ناکام ہوگئیں، پاکستان کو تنہا کرنے کا دعویٰ کرنے والا بھارت خود تنہائی کا شکار ہونے لگا۔دنیا میں پاکستان کے خلاف مودی سرکار کا راگ بے سرا ثابت ہوااور کسی ملک نے کان نہ دھرا۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت کی دوستانہ تجارتی پالیسیوں اور فعال سفارتکاری کے باعث بھارت کے بے دام غلام اور باجگزار ملک بھی پاکستان سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔۔۔یوں تو ڈوگرا راج سے آزادی کے اعلان کے فور۱ًبعد ہندو انتہا پسند تنظیموں اور بھارتی فوج نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا، پاکستان سے الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں پرغاصبانہ قبضہ کیا اور مشرقی پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارتی ریاستی ادارے ملوث رہے، بلکہ اس کا وقتاًفوقتاً اظہار بھی کیا گیا۔ ممبئی حملوں کے بعدپاکستان مخالف سرگرمیوں میں مزید اور شدت آئی اور ہندوستان ہر عالمی فورم پر پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلانے کے لئے ہمہ تن سرگرم ہو گیا، مگراسے ہمیشہ ہزیمت کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ جب سے نریندر مودی کی قیادت میں ہندو طالبان کی حکومت نے زمام اقتدار سنبھالا ہے، اس وقت سے مادروطن کے خلاف یہ خوفناک منصوبہ بندی روز افزو ہوتی چلی گئی اور بے دام غلام بنگلہ دیش اور باجگزار افغانستان اور ایران کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مقبوضہ کشمیر میں سورما فوج کی درندگی ، سفاکیت اور حیوانیت سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی اور پاکستان کو دہشت گرد وں کا کفیل ملک قرار دلانے اور معاشی پابندیاں لگوانے کے لئے ریشہ دوانیاں شروع کر دیں،لیکن بھارت کو علاقائی اور عالمی سطح پر سفارتی محاذ پرپسپائی کا سامنا رہا۔
3ستمبر کو دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں کے سربراہان مملکت کے اجلاس ’’جی 20‘‘میں نریندر مودی نے دہشت گردی کو بنیاد بنا کر پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کا راگ الاپااورسی پیک پر اعتراضات اٹھائے، لیکن چینی صدر شی جن پنگ نے انہیں کھری کھری سنادیں اور واضح کیا کہ راہداری منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے گا۔ 21ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام عالم کے سامنے کشمیر کا مدعا بھرپور انداز میں پیش کر کے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا تو مودی سرکار تلملا اٹھی اور اڑی حملے کے فلاپ شو سے پاکستان کے خلاف حقارت کے بیج بونے کے لئے سعی بسیار کی، لیکن منہ کی کھانا پڑی۔ حال ہی میں بھارتی شہر گوا میں ابھرتی معیشتوں کی 5ملکی تنظیم ’’برکس‘‘ کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف شرکاء ممالک کو بھڑکانے کے لئے نریندرمودی نے بین کئے، لیکن کسی نے ترس نہ کھایا۔روس نے بھارتی موقف مسترد کیا، جبکہ چین نے پاکستان سے روایتی دوستی کا دفاع کرتے ہوئے بھارت کونہ صرف ٹھینگا دکھادیا، بلکہ تجارتی وزارتوں کے اہم ترین اجلاس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردی کو کسی ملک سے منسلک کرنے کے خلاف ہیں، پاکستان نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جس کی اقوام عالم معترف ہے۔بھارت نے رواں برس نومبر میں ہونے والی سارک کانفرنس سے اس لئے راہ فرار اختیار کی، کیونکہ وہ اس خطرے کو بھانپ چکا تھا کہ پاکستان کے خلاف علاقائی فورم پر بھی کوئی اس کا ساتھ نہیں دے گا اور اسے خفت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) نہ صرف پاکستان کی معاشی خوشحالی کا منصوبہ ہے، بلکہ پورے خطے کے لئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف کے اقتصادی ویژن اور سی پیک پرحکومت کی سنجیدگی اور تیز رفتارترقیاتی کاموں کے سبب ایران، افغانستان، سعودی عرب، ترکی، وسطی ایشیائی ممالک، خلیجی تعاون کونسل ممالک اس معاشی منصوبے میں شامل ہو رہے ہیں۔ ایران نے ہندوستان کی ’’گریٹر بلوچستان ‘‘ کے قیام کی چالبازیوں کا بروقت ادرا ک کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے ہاتھ کھینچا اور سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کرکے پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا،جسے چین نے بھی خوش آمدید کہا ہے۔طعن و تشنیع کرنے والا بھارتی باجگزار افغانستان بھی شب و روز میگا پراجیکٹس پر تعمیراتی کام دیکھ کر راہداری منصوبے میں شامل ہونے کی خواہش کئے بغیر نہ رہ سکا ۔ افغانی سفیر عمر خیل وال نے سی پیک میں افغانستان کو شامل کئے جانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو منصوبہ پاکستان کے لئے اچھا ہو گا، وہ پورے خطے کے لئے سود مند ہو گا۔ افغان عوامی ترقی کے پیاسے ہیں اور ملک کو خوشحال ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت کو جانتے ہوئے سعودی وزیر اقتصادی منصوبہ بندی عادل الفقہیہ نے بھی منصوبے کو بحیرۂ احمر اور افریقہ تک پھیلانے کے لئے سی پیک میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اب پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو یورپ سے منسلک کرنے کے لئے فاسٹ ایشیا ٹرین منصوبہ بنانے کی تجویز پیش کر دی گئی ہے، جبکہ چین ترکی میں فاسٹ ٹرین کا منصوبہ مکمل کر چکا ہے۔ اگلے مرحلے میں پاکستان، ایران، بھارت اور دیگر ممالک کو فاسٹ ایشیا ٹرین کے ذریعے ترکی اور یورپ سے ملایا جائے گا۔ سی پیک ون بیلٹ ون روڈ ویژن کا توسیعی منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔
امریکہ نے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی جعلی پٹیشن پر بھارت کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کر تے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف درخواست ناقابل قبول ہے، پٹیشن مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اترتی ۔ اب برطانیہ کی جانب سے بھی ہندوستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آن لائن پٹیشن پر برطانوی حکومت نے پاکستان کے حق میں موقف اختیار کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ برطانیہ، پاکستان اور اس کے عوام کی ان قربانیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ ان تمام اقدامات سے بھارتی جنونیت کے خلاف اقوام عالم کی تشویش واضح ہو چکی ہے کہ اقوام عالم بھارتی سرکار کے موقف پر قائل نہیں ہوئیں، اس طرح بھارت اپنے ناپاک ارادوں میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی واویلے کے باوجود روس نے پاکستان سے دفاعی تعاون کے نئے دور کا آغاز کیا اور مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ اس پر بھی نریندر مودی نے بھرپور ماتم کیا، لیکن یہ سعی بھی لاحاصل رہی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کو خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون قرار دیا اور دنیا کی سب سے بڑی پنجایت میں کشمیر یوں کا بھرپور مقدمہ لڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اب رفیق اور رقیب دونوں پاکستانی موقف کی بھر پور حمایت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات ضروری ہے اور زور دیا کہ بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لئے مذاکرات کرے۔کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت میں اسلامی ممالک کی تنظیم ’’او آئی سی‘‘ بھی میدان میں اتر آئی ۔تنظیم کے سیکرٹری جنرل ایاد امین مدنی نے او آئی سی کے رابطہ گروپ کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہا ر کیااور بھارتی مظالم فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مسئلے کا حل کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نکالے۔
ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی کے سپیکر اسماعیل کہرامن نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ترکی کی میزبانی میں ہونے والے او آئی سی کے پارلیمانی یونین کے 36ویں اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے گا تاکہ کشمیری عوام کی مشکلات کا فوری ازالہ کیا جا سکے۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوب نے بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کی اور تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت کے لئے سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔ بہترین سفارتکاری کے باعث ڈومور کا مطالبہ کرنے والا امریکہ بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر مبنی پاکستانی دستاویز پر غور کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نائب ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق رپورٹس کا جائزہ لے رہا ہے۔ بھارت کی کذب بیانی، دروغ گوئی، غلیظ اور تنفر آمیز پراپیگنڈے کے باوجودپاکستان کے مسلم امہ کے ساتھ بہتر روابط (پاکستان نے اپنے 9لاکھ 50 ہزار کارکن خلیجی ممالک بھیجے، جن میں 523ملین سعودی عرب اور 326ملین متحدہ عرب امارات گئے)، یورپی یونین اور رشین فیڈریشن سے بہتر تعلقات ، امریکہ کے ساتھ تزویراتی مذاکرات کی بحالی، شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کا حصول، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات(کاسا 1000 بجلی کی درآمد کا منصوبہ) (تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ)، چین پاکستان اقتصادی راہداری، چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری اور مسئلہ کشمیر کی طرف اقوام عالم کو متوجہ کرنا اس امر کا غماز ہے کہ وزیراعظم نواز شریف فعال سفارتکاری کے سبب مضبوط، متحرک ، پُرامن اور خوشحال پاکستان کے وژن پر سرگرم عمل ہیں ۔