ہارون الرشید اور تفتیشی کے درمیان دراصل کیا گفتگو ہوئی تھی اور اب ہارون الرشید کیا کرنے جا رہے ہیں؟ حقیقت بتانے کیساتھ ہی دبنگ اعلان کر دیا

ہارون الرشید اور تفتیشی کے درمیان دراصل کیا گفتگو ہوئی تھی اور اب ہارون ...
ہارون الرشید اور تفتیشی کے درمیان دراصل کیا گفتگو ہوئی تھی اور اب ہارون الرشید کیا کرنے جا رہے ہیں؟ حقیقت بتانے کیساتھ ہی دبنگ اعلان کر دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) معروف صحافی و تجزیہ کار ہارون الرشید نے کال ریکارڈنگ کے معاملے پر اپنا موقف دیتے ہوئے پولیس اہلکار کیخلاف ایف آئی اے میں درخواست دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر میں قصور وار ہوں تو بے شک مجھے سزا دی جائے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ہارون الرشید نے کہا کہ سوشل میڈیا پر میری ایک ریکارڈنگ وائرل ہوئی ہے جس کے باعث مجھ پر تنقید بھی کی گئی ہے لیکن اس طرح کی تنقید کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں اور نہ ہی کبھی وضاحت کی ہے مگر کچھ دوستوں کی فرمائش پر اپنا موقف دے رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بہاولپور کے قریب بغداد الجدید نامی ایک قصبہ ہے جہاں کے لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ایک بے گناہ آدمی کو چوری کے الزام میں پکڑا ہوا ہے اور جس کے ہاں چوری ہوئی ہے وہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ مذکورہ شخص چور نہیں جبکہ باقی لوگ بھی اسے بے گناہ قرار دے رہے ہیں مگر یہاں پر تعینات پولیس اہلکاروں کا یہ وطیرہے۔
ہارون الرشید نے کہا کہ میں پکڑے جانے والے شخص کو بالکل نہیں جانتا اور صرف ہمدردی کی بنیاد پر ہی ٹیلی فون کیا تھا مگر پہلے تو کوئی فون ہی نہیں سن رہا تھا اور جب ایس ایچ او اور محرر سے بات ہوئی تو انہوں نے گرفتاری سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ تفتیشی سے بات کی جائے۔
تفتیشی کو تلاش کیا اور اس سے فون پر بات ہوئی تو میں نے کہا کہ ہمارے ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ جس شخص کو آپ نے پکڑا ہے وہ قصور وار نہیں ہے اور ہمارے ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ نے اس پر تشدد کیا ہے تو اس حوالے سے بتائیے۔ اس پر اس نے کہا کہ اخبار نویسوں کے کون سے ذرائع ہوتے ہیں، ذرائع تو پولیس والوں کے ہوتے ہیں جس پر میں نے اسے کہا کہ اخبار نویسوں کے بھی ذرائع ہوتے ہیں۔
ہارون الرشید نے بتایا کہ میں نے پولیس اہلکار سے کہا کہ اگر وہ بے گناہ ہے تو اسے چھوڑنا چاہئے اور اگر خطاءکار ہے تو بھی بتائیں جس پر اس نے بدتمیزی کی اور کہا کہ آپ بلیک میلر ہیں جس کے جواب میں میرے منہ سے بھی سخت جملہ نکل گیا جو کہ مجھے نہیں کہنا چاہئے تھا۔
سینئر تجزیہ کار نے مزید کہا کہ اب مذکورہ پولیس اہلکار نے ویڈیو وائرل کی ہے جو ایک جرم ہے کیونکہ کوئی بھی نجی گفتگو ریکارڈ نہی کی جا سکتی اور اگر کی ہے تو وہ پوری ریکارڈنگ سامنے لائے۔ میں ایف آئی اے کو درخواست دے رہا ہوں اس واقعے کی تحقیقات کریں اور اگر میں قصور وار ہوں تو مجھے سزا دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جن پر ہم سیاسی طور پر تنقید کرتے ہیں اور جواب میں ہمیں گندی گالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں مگر پھر بھی ہم برداشت کرتے ہیں، انہیں ایک موقع مل گیا ہے کہ یہ تو بہت بڑا ظلم ہو گیا ہے، چیف جسٹس اس کا نوٹس لیں، وہ خوشی سے نوٹس لیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس سب کے بعد میں نے وہاں کے ایم این اے کو ٹیلی فون کیا جس پر اس نے کہا کہ پولیس والے مانتے ہیں کہ پکڑا جانے والا شخص بے گناہ ہے مگر چونکہ عدالتی بیلف نے چھاپہ مارا تو انہیں پرچہ کاٹنا پڑا جس کے بعد میں نے دوبارہ مذکورہ پولیس اہلکار کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ تو اس کا وطیرہ ہے۔ جب میں ملک سے باہر چلا گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ میرے خلاف دانستہ طور پر ایک مہم چلائی گئی، میں ایف آئی اے کو درخواست دوں گا کہ اس کی تحقیقات کریں اور اگر میں قصور وار ہوں تو مجھے سزا دی جائے۔