گیس کے نرخوں میں دوسری مرتبہ اضافہ
بزرگوں کی جوضرب المثل ہے وہ ذرا کرخت ہے، اس لئے براہ راست پیش کرنے کی بجائے مہذب الفاظ میں عرض ہے کہ جلدی کے کاموں میں بعض اوقات نقصان کا بھی احتمال ہوتا ہے اور یہی سمجھا جاتا ہے کہ کرنے والے کو شاید عبور حاصل نہیں تھا، موجودہ حکومت اور حکمرانوں نے جب سے اقتدار سنبھالا وہ جلدی میں نظر آرہے ہیں اور ایک کے بعد ایک کام کرتے چلے جارہے ہیں، ہم لکھنے والوں کے لئے بھی مسائل پیدا کر اور خود اپنے لئے بھی عوامی رد عمل کا سامنا کررہے ہیں، ابھی تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے اور ابھی سے تنقید شروع ہوچکی ہوئی ہے ہم نے پہلے بھی عرض کیا اور اب پھر گزارش کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے ابھی کم وقت ہوا اور ان سے کسی کرشمے کی توقع کرنا درست نہیں، تاہم خود ان کو بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ اس ملک میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام ان کی جماعت ہی سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی یہ سب سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے، یہ سب گوشت پوست کے انسان ہیں ان میں سے اشرافیہ کا طبقہ عام لوگوں کی نسبت کہیں کم ہے، سفید پوش حضرات کی تعداد کہیں زیادہ ہے جو اپنا بھرم قائم رکھنے کے لئے جھوٹی مسکراہٹ بھی سجا لیتے ہیں جو 33فیصد غریب ہیں تو وہ ہر لمحے پیٹ کی بھوک کے لئے جیتے مرتے رہتے ہیں اس لئے حکمت عملی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان کا خیال رکھا جائے، ان کے بوجھ میں اضافہ ضروری ہے تو احتیاط کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھایا جائے ایک دم پورا وزن لاد دیا گیا تو ان کے گھٹنے ٹیڑھے ہوں گے اور یہ گرجائیں گے۔
کوئی اور مانے یا نہ مانے، چلئے ہم آپ کی اس دلیل پر صاد کرتے ہیں کہ سابقہ حکمرانوں نے (بلا لحاظ)وقتی مصلحت کے تحت حالات سے مطابقت پیدا نہیں کی اور سبسڈی کو پروان چڑھا کر اداروں کو نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے آج معیشت کا بھٹہ بیٹھا ہوا ہے اور اسے سنبھالنا مشکل ہو چکا ہے، چلئے ہم نے مان لیا توآپ یہ سب ایک ہی ہلے میں درست کرلیں گے؟ شاید ممکن نہ ہو، آپ کی طرف سے گیس کے نرخوں میں اضافے کے حق میں اعدادوشمار کا سہارا لیا جارہا ہے کہ خسارہ بہت ہے، لیکن خود اپنی سادگی پالیسی کے مطابق یہ نہیں دیکھا جارہا کہ یہ خسارہ صرف قیمت میں سبسڈی کی وجہ ہی سے ہے یا کچھ اور وجوہات بھی شامل ہیں، بہتر ہوتا کہ آپ سوئی گیس کمپنیوں کی مراعات تنخواہوں اور اخراجات کا اندازہ لگاتے بلکہ زبان زدعام کے مطابق ’’فرانزک آڈٹ‘‘ کرالیتے تو معلوم ہو جاتاکہ نقصان یا خسارہ کہاں ہے۔
جہاں تک سوئی گیس حکام کا تعلق ہے تو ان کی طرف سے بہت پہلے بتا دیا گیا تھا کہ ادارہ خسارے میں سبسڈی کے سہارے چل رہا ہے، تاہم ابتدائی پالیسی اور حکمت عملی کے تحت یہ عمل شروع تھا کہ ہر سال یکم جنوری اور یکم جولائی کو گیس سبسڈی میں کمی کی جاتی اور گیس کے نرخوں میں معمولی اضافہ کردیا جاتا یوں غیر محسوس طریقے سے سبسڈی میں کمی ہوتی چلی جارہی تھی اب ہوا یوں کہ گزشتہ پانچ سال سے یہ عمل روک دیا گیا تھا اور کٹوتی منجمد کرکے نرخ بھی ایک ہی شرح پر روک دیئے گئے، چنانچہ واجبات بڑھتے نظر آئے، اب نئی حکومت آتے ہی سوئی گیس حکام نے خود کو سرخرو کرنا چاہا اور وفاقی حکومت سے گیس پر سبسڈی کم سے کم کرنے کے لئے نرخ بڑھانے کا مشورہ دے دیا جو تسلیم کرلیا گیا حالانکہ گھریلو حضرات پہلے ہی مہنگائی کی مختلف اقسام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، حکمرانوں نے عمل کرلیا اور اب دوسری بار گیس کے نرخ بڑھا دیئے، جس شرح سے اضافہ ہوا وہ ناقابل یقین بھی ہے کہ بتدریج والی پالیسی یکایک ترک کرکے ایک ہی جھٹکے میں حساب برابر کرنے کی کوشش کی گئی، رد عمل قدرتی ہے اور ہو رہا ہے، اسی طرح بجلی کے نرخوں کا بھی مسئلہ ہے اور وہاں بھی اضافہ منوا لیا جائے گا کہ خود وزیر اعظم یہ منطق تسلیم کرچکے ہیں اور اب تو الزام بھی لگاتے ہیں۔
میٹروبسوں کے کرائے کا معاملہ سامنے آیا تو پہلے انہیں بند کرنے کی بات کی گئی لیکن بوجوہ ایسا ممکن نہیں تھا تو اب کرایوں پر نظر ثانی کی جارہی ہے، یہ غیر مقبول فیصلہ ہے لیکن منطقی اعتبار سے درست ہے کہ ابتدا میں گجومتہ سے شاہدرہ چوک والی میٹرو بس کے لئے 30-20اور 60روپے کرایہ متعین کیا گیا لیکن بعد میں مصلحت کی بنا پر اسے بیس روپے کر دیا گیا، لنک بسوں کا پندرہ روپے ہے، اگر یہ سہولت برقرار رکھ کر عوام کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے تو پھر کرایوں پر نظر ثانی کرلیں اور فزیبلٹی کے مطابق پندرہ سے 20یا 25اور 20سے 30 اور 60کرلیں، تاہم سروس کا معیار بہتر کریں، بسوں میں بھی اضافہ کریں عوام یہ بھی برداشت کرلیں گے لیکن خیال رہے کہ گرانی کا سونامی رک نہیں رہا، تو اس نئے بوجھ کا اندازہ ضرور کرلیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے پی، آئی، اے، ریلوے اور سٹیل ملز کا بار بار ذکر کیا، ان کا کہنا بجا کہ اتنے بڑے خسارے کے ساتھ کب تک گزارہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کا حل ان اداروں کی بندش نہیں کہ یہ قومی ادارے ہیں ان کی بندر بانٹ نہیں ہونا چاہئے، بہتر ہوگا کہ ان پر سے نقصان کا بوجھ کم کیا جائے، بار بار رقوم دینے کی بجائے ایک ہی مرتبہ خرچ کریں، گولڈن ہینڈشیک کے ذریعے ملازمین کی تعداد کم کرلیں اور اداروں کو چلانے کے لئے ضروری عملہ رہنے دیں، کچھ ان کی بہتری پر خرچ ہونے دیں، یوں یہ ادارے بچ جائیں گے ورنہ پاکستان ٹائمز، امروز اور مشرق کی طرح ڈوب جائیں گے۔