مغرب کو اسلامک فوبیا کیوں: سپر پاور زبمقابلہ سپریم پاور

مغرب کو اسلامک فوبیا کیوں: سپر پاور زبمقابلہ سپریم پاور

  

سامنے کا منظر یہ ہے کہ اس وقت امریکہ سپر پاور ہے اور نیٹو ممالک کااتحاد بنا کر اقتصادی و عسکری طاقت کے ساتھ پوری دنیا کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے۔

جہاندیدہ لوگ یہ پیش گوئی بھی کر رہے ہیں کہ آئندہ برسوں میں چین سپر پاور بن سکتا ہے، کیونکہ چین بھی روس، وسط ایشیائی ریاستوں اور پاکستان و ایران کے ساتھ مل کر ایک مضبوط معاشی و عسکری بلاک بنا رہا ہے۔

آنے والے برسوں میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ دفاعی اور معاشی تجزیہ کاروں کے تجزےئے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر پیش کئے جار ہے ہیں، لیکن ان سپر پاورز کی پالیسیوں اور دنیا پر حکمرانی کے خواب کے ساتھ ساتھ ایک سپریم پاور (اللہ) بھی موجود ہے، جس کی تدبیریں، پالیسیاں اور حکمت عملی کا تسلسل بھی جاری ہے، جس کا جائزہ لینے سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک ،مغربی ممالک اور غیر مسلم ریاستیں جب اس پر غور کرتی ہیں تو وہ اسلامک فوبیا کا شکار ہو جاتی ہیں، جس کا اظہار ہمیں اسلام کے خلاف مختلف ہتھکنڈوں اور مسلمانوں کی نسل کشی کی صورت میں دکھا ئی دیتا ہے۔ اس فوبیا کی اصل وجہ کیا ہے؟ اسے جان کر غیر اسلامی ممالک کی مسلم دشمنی کی حقیقت کھل جاتی ہے۔

امریکی تجزیہ کار ’’ہیرئیٹ شرووڈ‘‘ نے اپنے ایک مضمون میں بڑے دلچسپ اعداد و شمار پیش کئے، جنہیں جاننے کے بعد حیرانی ہوتی ہے کہ اللہ کے قانون کے خلاف چلنے والے لوگ تما م وسائل رکھنے کے باوجود کس طرح زوال کا شکار ہوکر اپنا نام و نشان مٹا رہے ہیں۔

ہیر ئیٹ لکھتا ہے کہ دنیا میں 84فیصد آبادی کا تعلق کسی نہ کسی مذہب سے جڑا ہے، جبکہ 16فیصد لوگ لادین ہیں، جن لوگوں کا کوئی دین نہیں، ان کی اوسط عمر پینتالیس سال سے زیادہ ہے، جبکہ دین کو ماننے والوں کی اکثریتی آبادی نوجوان ہے۔ 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی 7.3 ارب ہے، جس میں عیسائی 2.3 ارب کے ساتھ کل آبادی کا 31.2 فیصد، مسلمان 1.8 ارب کے ساتھ 24.1 فیصد، ہندو 1.1 ارب کے ساتھ15.1 فیصد، بدھ500 ملین کے ساتھ 6.9 فیصد، یہودی 14 ملین کے ساتھ 0.2 فیصد، جبکہ دوسرے مذاہب (سکھ، جین ازم وغیرہ)کے ماننے والے 400 ملین کے ساتھ6 فیصد اور کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے 1.2 بلین 16 فیصد کے ساتھ عیسائیوں اور مسلمانوں کے بعد دنیا کی تیسری بڑی آبادی ہے۔ مذاہب کو ماننے والوں اور لادین لوگوں کی اکثریت کن ممالک میں رہتی ہے، یہ بھی ایک دلچسپ زائچہ ہے۔

براعظم ایشیا میں ہندو مذہب کے 99 فیصد لوگ آباد ہیں، جبکہ بدھ مذہب کے ماننے والوں کا بھی یہی تناسب ہے۔لادین افراد کا تناسب 90 فیصد ہے، جس میں سے 76 فیصد صرف عوامی جمہوریہ چین میں آباد ہیں۔

ہندو مذہب کے 97 فیصد لوگ ہندوممالک انڈیا،ماریشس اور نیپال میں آباد ہیں، جبکہ تین فیصد دنیا کے دوسرے ممالک میں رہتے ہیں۔ عیسائی مذہب کو ماننے والے 87فیصد لوگ 157 عیسائی ممالک میں رہتے ہیں۔

مسلمان آبادی کا تین چوتھائی حصہ مسلم ممالک میں آباد ہے، جبکہ ایک چوتھائی غیر مسلم ممالک میں رہتا ہے۔ مسلمان آبادی کا دس فیصد حصہ چین، بھارت، چیک ریپبلک اور نارتھ کوریا میں آباد ہے۔ بدھ مذہب کے ماننے والوں کی 72 فیصد آبادی بھوٹان، میانمار،کمبوڈیا، منگولیا، سری لنکا، تھائی لینڈ اور لاؤس، جبکہ باقی 28 فیصددنیا کے دوسرے ممالک میں رہتی ہے۔

ان اعداد و شمار کے بعد سب سے دلچسپ جائزہ یہ ہے کہ کون سے مذاہب بڑھ رہے ہیں اور کون سے سکڑ رہے ہیں۔ دنیا کی کل آبادی میں نوجوان عمر کے لوگوں کا تناسب 28 فیصد ہے، اس کل نوجوان آبادی کا اگر ہم تناسب نکالیں تو آگے کچھ یوں تناسب بنتا ہے کہ ان میں سے ہندو مذہب کے 8 فیصد لوگ، مسلمانوں کے 6 فیصد یعنی کل 28 فیصدکا آدھا حصہ توانہی دو مذاہب میں تقسیم ہے، جبکہ دوسرے مذاہب کی زیادہ تر آبادی نوجوانی کے دور سے گزر کا ڈھلتی عمر کا شکار ہوچکی۔

دنیا میں بوڑھے لوگوں کی کل آبادی میں عیسائی 30 فیصد، بدھ 34 فیصد، یہودی 36 فیصد اور لادین 34 فیصد ہے۔ ان مذاہب میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے اضافہ مسلمانوں میں ہو رہا ہے۔ 2015ء سے 2060ء تک اسلام کو ماننے والوں کی آ بادی دوگنا ہو جائے گی۔

موجودہ اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی شرح 70 فیصد، جبکہ باقی مذاہب بشمول لادین صرف 32 فیصد ہے۔ ہندو بھی برتھ کنٹرول سسٹم پر بہت سختی سے عمل کر رہے ہیں۔

ہندو مذہب کے ماننے والوں نے فیملی پلاننگ کے ساتھ اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو 27 فیصد پر کنٹرول کر رکھا ہے۔ کرسیچین کی شرح 34 فیصد کے ساتھ سکڑ رہی ہے، اس میں افریقی سہارا ممالک کا سب سے زیادہ حصہ ہے، جبکہ یہودی 15 فیصد کے ساتھ بڑھ رہے ہیں جو ان کے لئے الارمنگ ہے۔بے دین افراد کی شرح آبادی 3 فیصد ہے۔ یہ لوگ بچے پیدا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور اس کی اکثریتی آبادی کی عمریں 45 سال سے زیادہ ہیں۔ بدھ مذہب کی شرح پیدائش پہلے سے 7 فیصد کم ہوچکی ہے، جبکہ مرنے والوں کی تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔

مسلم خواتین میں بچے پیدا کرنے کی شرح 2.9 فیصد ہے، جبکہ عیسائی خواتین میں یہ تناسب 2.6 فیصد ہے، لیکن اس شرح پیدائش کے ساتھ عیسائی سکڑ رہے ہیں، کیونکہ 2010ء سے 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں عیسائی 6 ملین وفات پاگئے، جبکہ 2.6 ملین نئے بچے پیدا ہوئے۔ دنیا کے کل مرنے والوں میں عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ 37 فیصد رہی۔ عیسائی ریاستوں میں نوجوان کرسیچین بہت تیزی سے لادین ہو رہے ہیں اور عیسائیت سے تعلق توڑ رہے ہیں۔ ویسٹرن یورپ اور آئیر لینڈ میں عیسائیت مسلسل سکڑ رہی ہے۔2011ء سے 2016 ء کے پانچ برسوں کے دوران 9.8فیصد نوجوان عیسائی مذہب چھوڑکر لادین ہوگئے۔ ان لوگوں میں سکاٹ لینڈ میں سب سے زیادہ 59 فیصد لوگ لادین ہوئے، جن کی اوسط عمر 44 سال سے کم تھی۔ مسلمانوں کے لئے بھی ایک الارمنگ پوزیشن ہے کہ عیسائی مشنریوں نے امریکہ میں افریقی ممالک سے آنے والے14 فیصد نوجوانوں کو مذہب تبدیل کرکے عیسائی بنا لیاہے۔ ان اعداد و شمار اور مستقبل کا منظر نامہ جب غیر مسلم ممالک دیکھتے ہیں تو بے بسی سے تلملا اٹھتے ہیں اور اسلامک فوبیا کا شکار ہوکر مسلمانو ں کے خلاف مختلف محاذ کھول لیتے ہیں۔

پچھلے چند برسوں سے کروسیڈ، مسلم ممالک کو خانہ جنگی کا شکار کرکے ان کی نسل کشی اور اقتصادی پابندیوں کا شکار کرکے ان کی شرح اضافہ کم کرنا اسی فرسٹریشن اور خوف کی علامات ہیں، جن کا یہ شکار ہوچکے۔او آئی سی،مسلم سکالرز اور نصابی تعلیم میں ہمیں ہنگامی تبدیلیاں کرکے ان عوامل کے آگے بند باندھنا ہے، جن کو ہمارے خلاف استعمال کرکے مغربی ممالک اور غیر اسلامی ممالک اسلام کا پھیلاؤ اور مستقبل میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے سے روکنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

غیر اسلامی ریاستیں اور لادین ممالک کی آبادی آئندہ چالیس سال تک بہت حد تک سکڑ جائے گی، جس کی وجہ ان کا غیر مہذب کلچر ہے۔ بے راہروی، غیر انسانی لائف سٹائل، ہم جنس پرستی، بچے پیدا نہ کرنے اور خاندانوں کے خاتمے کے رجحان نے ان لوگوں کو حیوانیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔

ان لوگوں کی شرح پیدائش مسلسل گھٹ رہی ہے، جبکہ مرنے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، ان لوگوں کی خواتین کی اوسط عمر زرخیزی کی عمر سے ڈھل رہی ہے۔ بوڑھے لوگوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور نوجوان تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔

ہم جنس پرستی کا شکار ہوکر یہ لوگ انسانی قدروں سے محروم ہوچکے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اس کی اجازت دے دی ہے، جس کے خوفناک نتائج اگلے بیس پچیس سال تک برآمد ہونا شروع ہو جائیں گے اور ہندو آبادی مسلسل گھٹ کر اقلیت میں بدل جائے گی۔

اگلے تیس چالیس سال بعد جب یہ مذہب سکڑ جائیں گے اور مسلمان واضح اکثریت میں ہوں گے تو پھر یہ لوگ اپنے مذاہب کے ماننے والوں میں اضافے کے لئے مسلمانوں کومعاشی خوشحالی کا لالچ دے کر مختلف تراغیب سے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کریں گے، جیسا کہ افریقی ممالک سے آنے والوں پر عیسائی مشنریاں کام کر رہی ہیں اورانہیں کافی کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اسلامی ممالک کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور اپنی نئی نسل کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم سے بھی روشناس کرنا ہوگا، تاکہ کل کو یہ بھٹکنے سے بچے رہیں۔

ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے اور مسلمان ممالک کے اقتصادی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں، جب مسلمان دجالی طاقتوں سے نبرد آزما ہوں گے، جہاں ان پر اقتصادی پابندیا ں لگا کر غیر مسلم و لا دین ریاستیں انہیں دین بدلنے پر مجبور کریں گی اور بدلے میں اقتصادی مراعات دیں گی اور کمزور ممالک پر حملے کریں گی۔

مسلمان ممالک کو ابھی سے اس خوفناک صورت حال سے نبرد آزما ہونے کی تیاری شروع کرنا ہوگی، تاکہ امت مسلمہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو۔

اس سب کے ساتھ ہم اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے کہ ان سپر پاورز کے اوپر بھی ایک سپر یم پاور بیٹھی ہے جو انہیں ان کی ذہنی شیطانیت سے برباد کر دے گی اور دین محمدی ﷺکو ماننے والے اسلامی تعلیمات کے فیضان سے ثمرآور ہوکر ان پر حکمرانی کریں گے۔

مزید :

رائے -کالم -