کیا عوام جمہوریت اور پارلیمینٹ سے مایوس ہو جائیں؟

کیا عوام جمہوریت اور پارلیمینٹ سے مایوس ہو جائیں؟
کیا عوام جمہوریت اور پارلیمینٹ سے مایوس ہو جائیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اپوزیشن کا اضطراب دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ وہ حکومت کے ختم ہونے کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔ اپنی حکومتوں کے پانچ پانچ سال مکمل کرنے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف کو پانچ ماہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔

اس وقت صاف نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن مرکز اور صوبہ پنجاب کی اسمبلی کو چلنے نہیں دے رہی۔ پہلے دن سے ہنگامہ آرائی ہے، واک آؤٹ ہو رہے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں تو معاملہ دنگے فساد تک پہنچ گیا ہے،اب وہاں پہ ڈیڈ لاک ہے کہ جب تک معطل کئے گئے مسلم لیگ (ن) کے چھ ارکان اسمبلی کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اپوزیشن ایوان میں نہیں آئے گی۔

اپوزیشن کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں ہونے والے واقعہ پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا گیا، الٹا اسے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی جعلسازی قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے فرنیچر تڑوا کر جعلی تصویریں بنوائیں اور انہیں میڈیا کو بھیجا۔

اس پر یہ سوال تو ضرور بنتا ہے کہ اگرسپیکر نے چھ ارکان کو معطل کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ دوبارہ اسمبلی میں آکر وہ تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے؟ میری رائے میں اس واقعہ پر پنجاب اسمبلی کے ارکان کی ایک کمیٹی بننی چاہئے جس میں اپوزیشن کے ارکان بھی شامل ہوں، یہ کمیٹی ذمہ داروں کا تعین بھی کرے اور آئندہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہونے کی اپوزیشن اور حزب اقتدار سے تحریری ضمانت بھی لے۔

مگر جو ماحول چل رہا ہے، اس میں ایسی کوئی بات وقوع پذیر ہوتی نظر نہیں آتی، کیونکہ اپوزیشن کا موڈ بتا رہا ہے کہ وہ شہباز شریف کے باہر آنے تک حالات کو اسی طرح انتشار کا شکار رکھنا چاہتی ہے۔
اُدھر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی صورت حال نارمل نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو کھل کر تقریر کرنے کا موقع دیا، اپوزیشن مطمئن نہیں اور قانونی طریقے سے شہباز شریف کی رہائی کے بجائے چاہتی ہے کہ سیاسی دباؤ کے تحت انہیں نیب کی حراست سے نکالے۔

یہ ایسی خواہش ہے۔جسے حکومت با امر مجبوری پورا کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتی، کیونکہ اپوزیشن پہلے ہی یہ الزام لگا رہی ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری نیب اور عمران خان کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری تو اس سے بھی بہت آگے چلے گئے ہیں اور انہوں نے یہ الزام بھی لگا دیا ہے کہ چیئرمین نیب اور عمران خان خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں، ایسے میں اگر حکومت نرم گوشہ دکھاتے ہوئے شہباز شریف کو رہائی دلاتی ہے تو پھر یہی کہا جائے گا کہ نیب حکومت کا آلۂ کار بنا ہوا ہے، پھر شاید نیب کے لئے یہ ممکن ہی نہ رہے کہ وہ اپنے احتساب کا عمل جاری رکھ سکے۔

اپوزیشن بھی یہ جانتی ہے کہ حکومت اس میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی مگر چونکہ وہ نظام کو چلنے نہیں دینا چاہتی، اس لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران خود پر الزامات کی چھان بین کے لئے پارلیمانی کمیشن بنانے کی تجویز دی تھی، جسے حکومت نے قبول نہیں کیا، ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔

اگر یہ روایت پڑ گئی تو پھر نیب کرپشن کے الزامات پر کسی بھی رکن پارلیمینٹ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکے گا، یہ ذمہ داری پارلیمانی کمیٹیوں کو مل جائے گی۔

جس طرح پولیس کے سوا فوجداری مقدمے کی تفتیش کوئی نہیں کرسکتا، اسی طرح مالی بدعنوانی کے معاملات کو صرف اینٹی کرپشن، نیب اور ایف آئی اے ہی دیکھ سکتی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جب نواز شریف پر مقدمے چل رہے تھے، انہیں نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ بعدازاں اُن کی گرفتاری بھی ہوگئی تھی تو قومی اسمبلی یا پنجاب اسمبلی میں اس طرح کی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی، مگر شہباز شریف کی گرفتاری پر پورے پارلیمانی نظام کا پہیہ جام کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے، جو سمجھ سے بالا تر ہے۔

اپوزیشن حکومت سے ایک ایسا ریلیف چاہتی ہے، جو وہ دے ہی نہیں سکتی، ایک طرف ملک میں احتساب کے دعوے ہیں تو دوسری طرف حکومت یہ کیسے کرسکتی ہے کہ شہباز شریف کو نیب کے شکنجے سے چھڑالے۔ اپوزیشن چاہتی ہے حکومت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے اور پھر زندگی بھر اُس زخم کو سہلاتی رہے۔
پیپلز پارٹی عجیب مخمصے کا شکار ہے، وہ اپوزیشن کا عملاً ساتھ تو نہیں دے رہی۔ واک آؤٹ میں شامل ہوتی ہے نہ دھرنا دیتی ہے، لیکن بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف کی حمایت میں ضرور بول رہے ہیں، جب سے منی لانڈرنگ کیس نے انگڑائی لی ہے، آصف علی زرداری نے خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔

منی لانڈرنگ پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی مخالفت بھی ہو رہی ہے اور عدالت نیز عوامی سطح پر پیپلز پارٹی اُس کی کارروائی رکوانے کے لئے کوشاں ہے، مگر اُس کی شنوائی اس لئے نہیں ہو رہی کہ یہ جے آئی ٹی بھی سپریم کورٹ کے حکم سے بنی ہے اور اس نے بھی اپنی کارروائی کا ایک جج کو جواب دینا ہے۔

اس کیس میں اب تک جتنے اکاؤنٹس اور حقائق سامنے آچکے ہیں، لگتا یہی ہے کہ اس میں بچنا اب ممکن نہیں۔ اربوں روپے تو غریبوں کے اکاؤنٹس سے برآمد ہو رہے ہیں، انہیں کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کے لہجے میں حکومت کے لئے جو تلخی آئی ہے، اس کا باعث بھی یہی کیس ہے، اگر پیپلز پارٹی آج شہباز شریف کے حق میں بیان جاری نہیں کرتی تو کل آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری پر تنہا رہ جائے گی، مگر جھوٹ کی بنیاد پر عمارت کیسے استوار کی جاسکتی ہے؟ اُن کا یہ کہنا کہ عمران خان اور نیب کے چیئرمین خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں، ایک ایسی بات ہے جس پر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔ چیئرمین نیب دن کی روشنی میں عمران خان سے ملے تھے اور اُس ملاقات کی میڈیا کوریج بھی ہوئی تھی۔

اس ملاقات کی غرض و غایت بھی بتا دی گئی تھی۔ عمران خان کو آخر کیا پڑی ہے کہ وہ آصف علی زرداری یا شہباز شریف کے خلاف نیب کو کارروائی کا حکم دیں، جبکہ دونوں کے خلاف کیسز تو پہلے ہی چل رہے ہیں۔

کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ عمران خان ایف آئی اے کے ذریعے آصف علی زرداری کو نشانہ بنا رہے ہیں، حالانکہ آصف علی زرداری کے خلاف کیس نیب نہیں ایف آئی اے کے پاس ہے، شاید نیب کا ذکر کرکے انتقامی کارروائی کا تاثر زیادہ آسانی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے۔

ایک عام خیال یہ تھا کہ گزشتہ دس برسوں میں جمہوریت کے استحکام کی وجہ سے سیاسی قوتوں میں بڑی حد تک بالغ نظری آگئی ہو گی، لیکن جب سے تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے یوں لگتا ہے اپوزیشن کی ہر جماعت ضد کر رہی ہے کہ حکومت کو چلتا کر کے نئے انتخابات کرائے جائیں۔

انتخابات کے فوراً بعد مولانا فضل الرحمن نے جس طرح اسمبلیوں میں نہ جانے، حلف نہ اٹھانے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا، اس پر سب انگشت بدنداں رہ گئے تھے، حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اسے ناقابل عمل قرار دیا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسمبلیوں کو مضبوط کیا جاتا، حکومت ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس کا ساتھ دیا جاتا، مگر اس کے برعکس سارا زور اس نکتے پر صرف کیا جا رہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، اس کی ڈکٹیشن مانے، کرپشن کے خلاف مہم جوئی نہ کرے اور جو کچھ ہو چکا ہے۔

اس پر مٹی ڈال دے۔ دیکھا جائے تو حکومت نے تو ابھی کچھ نہیں کیا، کوئی کیس نیب کو نہیں بھیجا، کسی سیاسی مخالف کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا، اس نے تو صرف یہ کہا ہے کہ ملک کا لوٹا ہوا مال واپس لایا جائے گا، کسی کو این آر او کی سہولت نہیں دی جائے گی، احتساب کے عمل میں مداخلت نہیں ہو گی۔

اب ان باتوں کی وجہ سے حکومت کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے تب بھی نیب کی پیشیاں بھگت رہے تھے۔ اس وقت ان کے خلاف کون انتقامی کارروائی کر رہا تھا؟ آصف علی زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں تفتیش تو بہت پہلے سے ہو رہی ہے، اس وقت تو کسی کو یقین بھی نہیں تھا کہ عمران خان وزیر اعظم بن جائیں گے۔

عجیب بات ہے کہ اپنے اقتدار میں تو نیب یا ایف آئی اے کی کارروائی رکوائی نہیں، اب عمران خان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ یہ کارروائیاں بند کرائیں۔ وگرنہ ان پر انتقامی سیاست کا الزام لگایا جائے گا۔

یہ توقع وہ اس عمران خان سے رکھے ہوئے ہیں جو اپنی بائیس سالہ جدوجہد میں اسی نکتے کو اپنا مشن قرار دیتا رہا ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کا احتساب کرے گا۔
پاکستان میں جمہوریت بڑی مشکل سے مستحکم ہوئی ہے، تیسری بار انتخابات ہوئے اور تسلسل کے ساتھ پر امن منتقلی اقتدار ہوئی، اب جمہوری اداروں کو چلنے دیا جائے۔

جو کچھ بھی کرنا ہے اسمبلیوں کے اندر رہ کر کیا جائے، وہاں بھی اس صورت حال سے گریز کیا جائے جو پنجاب اسمبلی میں دیکھنے کو ملی۔ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ دوسرے کو بولنے نہ دیں اور اسے اپنی کامیابی سمجھیں۔

اصل کامیابی یہ ہے کہ آپ بولیں اور دلائل سے دوسروں کو اپنی بات ماننے پر مجبور کر دیں، عوام چاہتے ہیں اسمبلی میں ان کے مسائل پر بات کی جائے، مگر یہاں تو سوائے ہڑبونگ اور شور شرابے کے انہیں کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا تو کیا وہ جمہوریت اور پارلیمینٹ سے مایوس ہو جائیں؟

مزید :

رائے -کالم -