پیغمبر کی تعلیم اور شیطان کا طریقہ

پیغمبر کی تعلیم اور شیطان کا طریقہ
پیغمبر کی تعلیم اور شیطان کا طریقہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اخبار کا خلاصہ یہ چند خبریں تھیں۔ ایک بوڑھی خاتون نے تھانے کی دیواروں سے سر ٹکراتے ہوئے جان دے دی۔ اس کے بیٹے کو پولیس نے جھوٹے کیس میں پھنسا کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ بیس سالہ بس ہوسٹس لڑکی جو اپنے گھر کی کفالت کے لیے نکلی تھی، اسے دو حیوانوں نے اسلحے کے زور پر اغوا کیا اور وحشیانہ تشدد اور اپنی شیطانی ہوس کا نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں کا ایک معروف سیاست دان پر قاتلانہ حملہ۔ تین لوگ مارے گئے۔ یہ خبریں دیگ کے چند چاولوں کی طرح جرائم، دہشت گردی، حادثات، کرپشن، لاقانونیت اور وحشت کے اس پورے دور کا بیان ہیں جس میں ہم زندہ ہیں۔ میں نے پریشان ہوکر اخبار ایک کونے میں رکھ دیا۔
اسی لمحے میرے بیٹے کی معصوم غوغاں بلند ہوئی۔ مجھے احساس ہوا کہ سویرے اخبار پڑھنے کی جستجو میں اپنا روزانہ کا فریضہ بھول گیا ہوں۔ میں نے اپنے بیٹے کو رسول اللہ ﷺکی وہ ساری دعائیں سنانا شروع کیں جو آپ صبح سویرے اٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح عربی دعائیں سن کر خوش ہونے لگا، گو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں چار مہینے کا ہوا اور ایک حدیث نبوی ﷺ(مسلم، رقم 2643) کے مطابق اس میں روح پھونکی گئی، اسی وقت سے وہ روزانہ قرآن سنتا تھا۔ اسی لیے وہ ذکر و تلاوت سے بہت مانوس تھا۔
اس کی خوشی دیکھ کر اخبار سے پیدا ہونے والی میری جھنجھلاہٹ ختم ہوگئی۔ میں نے جانا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کتنے سچے ہیں جس میں وہ رب کریم کی تمام نعمتوں پر دل و جان سے اس کا شکر ادا کر کے اس کی حمد کرتے ہیں۔ ان دعاؤں کے الفاظ ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ہر انسان بدترین حالات کے باوجود بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں زندہ ہوتا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے موجود ہیں اور مجھے تنبیہ کر رہے ہیں کہ میں کیوں ان کی پیروی کا طریقہ چھوڑ کر شیطان کی پیروی کر رہا ہوں۔ نبی کا طریقہ شکر گزاری ہے۔ شیطان کا طریقہ مایوسی ہے۔ نبی کا طریقہ انسان میں مثبت سوچ پیدا کرتا ہے۔ شیطان کا طریقہ انسان میں منفی ذہن پیدا کرتا ہے۔
مجھے احساس ہوا کہ جب کبھی ہم زندگی کو غلط رخ سے دیکھتے ہیں ، ہم میں منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ ہم صرف مسائل کو دیکھتے ہیں اور مواقع کو نہیں۔ ہم مصیبت کو دیکھتے ہیں نعمت کو نہیں۔ ہم صرف وہاں دیکھتے ہیں جہاں ہم کچھ نہیں کرسکتے ، وہاں نہیں دیکھتے جہاں ہم دنیا بدل سکتے ہیں۔ جبکہ ہم میں سے ہر شخص کو اللہ نے نہ صرف ان گنت نعمتیں دی ہیں بلکہ ایسے مواقع بھی دیے ہیں جہاں ہم زندگیاں بنا سکتے ہیں ، خوشیاں بکھیر سکتے ہیں ، آسانیاں پھیلا سکتے ہیں۔
ہم اپنی اولاد اور متعلقین کی اچھی تربیت کرسکتے ہیں۔ ہم کسی ضرورت مند کی کوئی ضرورت پوری کر کے قیمتی دعائیں سمیٹ سکتے ہیں۔ ہر کسی کو اچھے کام کی نصیحت اور برائی پر توجہ دلا کر پیغمبروں کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ ہم کسی دکھی کے آنسو پونچھ سکتے اور محتاج کی حاجت روائی کرسکتے ہیں۔ کچھ اور نہیں تو کم از کم راستے سے پتھر ہٹا سکتے ہیں ، کسی مسلمان کو سلام کرسکتے ہیں اور کسی انسان سے مسکرا کر مل سکتے ہیں۔
ہم یہ سب کرسکتے ہیں ، مگر منفی سوچ کی وجہ سے نہیں کرتے اور صرف جھنجھلاہٹ اور مایوسی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ نہ صرف یہ نکلتا ہے کہ ہم اعلیٰ ترین نیکیاں کرنے سے محروم رہتے ہیں بلکہ اس منفی سوچ کے زیر اثر ہم خود بھی بدعملی اور بدکلامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہ سمجھ لے کہ مایوسی ابلیس کا طریقہ ہے اور امید اور شکر گزاری خدا کے جلیل القدر پیغمبروں اور پیارے بندوں کا۔ ہمیں شیطان کو چھوڑ کر اللہ کے نبیوں اور پیاروں کا طریقہ چننا ہو گا۔ اسی میں ہماری دنیا اور آخرت، ہمارے خاندان اور قوم سب کی نجات ہے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -