کویتی حکام سعودی ولی عہد کو کس نام سے پکارتے ہیں؟ ایسا انکشاف کہ جان کر ان کے غصے کی انتہا نہ رہے

کویتی حکام سعودی ولی عہد کو کس نام سے پکارتے ہیں؟ ایسا انکشاف کہ جان کر ان کے ...
کویتی حکام سعودی ولی عہد کو کس نام سے پکارتے ہیں؟ ایسا انکشاف کہ جان کر ان کے غصے کی انتہا نہ رہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

استنبول(مانیٹرنگ ڈیسک)سعودی عرب نے اپنے استنبول میں واقع سفارتخانے میں صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کا اعتراف کر لیا ہے تاہم دنیا سعودی حکومت کا یہ دعویٰ ماننے کو تیار نہیں کہ سفارتخانے میں حکام اور جمال خاشقجی کی لڑائی ہو گئی اور اس ہاتھاپائی میں جمال کی موت واقع ہو گئی۔ اس واقعے کی براہ راست ذمہ دار سعودی ولی عہد شہزادہ محمد پر عائد کی جا رہی ہے جنہیں لوگ سابق عراقی صدر صدام حسین سے بھی تشبیہ دے رہے ہیں اور کویتی حکام بھی انہیں ’چھوٹا صدام‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر سعودی حکومت کے برعکس ترک حکام کا موقف حقیقت کے قریب تر معلوم ہوتا ہے، جن کا کہنا ہے کہ 59سالہ جمال خاشقجی کو سعودی حکام نے خاص حکمت عملی کے تحت سفارتخانے آنے کے لیے ورغلایا۔ اس کے زندہ ہوتے ہوئے اس کے جسمانی اعضاءکاٹے گئے اور پھر اس کا سر دھڑ سے جدا کر دیا گیا۔ یہ کام ایک ’ٹائیگر ٹیم‘ نے کیا جو خاص طور پر اسی مقصد کے لیے سعودی عرب سے ترکی آئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں سعودی سفارتخانے کی عمارت پر نیا پینٹ کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس کمرے میں جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا اس کی دیواروں پر اس کے خون کے دھبے موجود تھے جنہیں مٹانے کے لیے نیا پینٹ کیا گیا۔ اسی روز سعودی سفارتخانے کی ایک گاڑی استنبول کے نواحی جنگل کی طرف گئی۔ راستے میں گاڑی میں موجود لوگوں نے اس کا سیٹلائٹ ٹریکنگ سسٹم بھی تباہ کر دیا تھا تاکہ گاڑی کی لوکیشن معلوم نہ کی جا سکے۔ اب اس جنگل میں ایک بڑا سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ جمال خاشقجی کے جسم کے ٹکڑے اسی جنگل سے برآمد ہوں جو ممکنہ طور پر سعودی سفارتخانے کی اس گاڑی کے ذریعے وہاں پھینکے گئے۔بہرحال اس حوالے سے تاحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6کے سابق سربراہ جان سیورز بھی اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم خود سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ وہ صرف شہزادہ محمد کے نقاد ہی نہیں تھے بلکہ وہ سعودی سکیورٹی سروسز کے مشیر رہ چکے تھے اور ریاض اسٹیبلشمنٹ کی اندر کی باتیں جانتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق جمال خاشقجی ’بی آرمی ‘ (Bee Army)نامی ایک آن لائن پلیٹ فارم کے سرپرست تھے، جو ایک خفیہ میسجنگ سسٹم تھا اور اپنی حکومت سے ناراض سعودی شہریوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ جمال خاشقجی کے لیے یہ پلیٹ فارم خطرناک ثابت ہوا اور اسی کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا، کیونکہ اس کی وجہ سے سعودی حکومت اور بالخصوص شہزادہ محمد کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچ رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق شہزادہ محمد کے اس اقدام پر پہلے سے متفکر ماہرین اور علاقائی لیڈر ان کے روئیے کو مشرق وسطیٰ کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ کویتی حکام پہلے ہی شہزادہ محمد کو ’چھوٹا صدام‘ کا خطاب دے چکے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ شہزادہ محمد بھی صدام حسین کی طرح ان کے ملک پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔جرمنی کی خفیہ ایجنسی بی این ڈی دسمبر 2015ءمیں ہی اپنی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے خدشات کا اظہار کر چکی ہے۔ اس نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ولی عہد شہزادہ محمد تمام تر اختیارات بتدریج اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور وہ اپنے باپ کی جگہ خود بادشاہ بننے کی کوشش کرسکتے ہیں اور اس کے بعد عرب دنیا میں صدام حسین جیسا لیڈر بننے کی کوشش کریں گے۔ایک خلیجی ملک کے حکمران خاندان کے ذرائع نے بتایا ہے کہ بی این ڈی نے یہ رپورٹ شہزادہ محمد کی ذہنی صحت کا ریکارڈ حاصل کرنے کے بعد جاری کی۔ شہزادہ محمد نوجوانی میں مرگی کے مریض تھے اور جرمنی سے انہوں نے علاج کروایا تھا جہاں ان کی ذہنی و جسمانی صحت کے مکمل ٹیسٹ کیے گئے۔ بعد ازاں بی این ڈی کی رپورٹ درست ثابت ہوئی اور شہزادہ محمد نے اس قدر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے کہ گزشتہ سال خود ولی عہد بن گئے اور اب وہ شاہ سلمان کے بعد سعودی عرب کے فرماں روا ہوں گے۔