شہباز شریف، دوراہے پر!

شہباز شریف، دوراہے پر!
شہباز شریف، دوراہے پر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اگر مجھے تھوڑی سی ترمیم کر کے یہ کہنے کی اجازت دی جائے کہ شہباز شریف کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے تو مَیں پیپلزپارٹی کا شکر گزار ہوں گا۔وہ دن لد گئے جب آصف علی زرداری کی سیاست کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا۔وہ تواب شہباز شریف کے مقابلے میں پرائمری پاس والوں کی سمجھ میں بھی آجاتے ہیں،یہ فضیلت تو اب شہباز شریف کو حاصل ہے کہ اُن کی سیاست ذہانت و فطانت کے لحاظ سے ساتویں آسمان کو چُھو رہی ہے،حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن بھی اُن کی سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔اُن کے آزادی مارچ کے بارے میں خیالات عالیہ کو سُن کر اب اگر بعض واقفانِ حال اور اندر کی خبر رکھنے والے یہ فرما رہے ہیں کہ شہباز شریف مستقبل کے وزیراعظم ہیں، تو انہیں آسانی سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔پورے شریف خاندان میں ایک شہباز شریف ہی تو ہیں، جنہوں نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے زبان پر پکا تالا لگا رکھا ہے،کوئی ہے مائی کا لعل جو شہباز شریف کا ایسا بیان ڈھونڈ کر لائے، جس میں محاذ آرائی کی ہلکی سی رمق بھی موجود ہو۔ اُلٹا اُن کے بارے میں یہ تاثر گہرا ہو گیا ہے کہ اپوزیشن کی پوری لاٹ میں سے ایک صرف شہباز شریف ہی ہیں،جو فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں،باقی سب تو عمران خان کو بھول کر فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔اس اہم ترین بات کو عام تام بندہ نہیں سمجھ سکتا،اس کے لئے واقعی پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔


شہباز شریف کے ساتھ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ اُن کی تقریر یا پریس کانفرنس پیمرا کو روکنے کی حاجت پیش آئی ہو، کیونکہ وہ اس قدر فرینڈلی کھیلتے ہیں کہ بلا دھڑک اُن کی باتیں نشر کر دی جاتی ہیں۔ آج مولانا فضل الرحمن کا اگرچہ طوطی بول رہا ہے، لیکن اُن کی تقریریں اور پریس کانفرنسیں قابل ِ اعتراض مواد کی وجہ سے نشر نہیں ہوتیں۔گویا وہ بھی اُس فہرست سے باہر ہو چکے ہیں، جو بااعتبار اور باوقار لوگوں کی ہے۔وہ اپنی ہر دوسری بات میں فوج کو لے آتے ہیں،لڑائی سیاسی ہے،مگر وہ اسے اسٹیلشمنٹ کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں۔اب یہ تو کوئی سیانا پن نہیں۔جب آپ اداروں سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو شکست سے پہلے ہی شکست آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔یہ غلطی آصف علی زرداری بھی کر چکے ہیں۔انہوں نے اپنی روایت سے ہٹ کر جب اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا بیان دیا تھا تو خود اُن کی اینٹ بج گئی تھی۔اُس کے بعد انہوں نے نواز شریف کے خلاف کئی بیانات دیئے، ایک انٹرویو میں تو اُن پر گریٹر پنجاب بنانے کا الزام بھی لگایا،مگر ان باتوں سے اُن کے اُس بیان کی کالک نہ دھل سکی،جو انہوں نے فوج کے خلاف دیا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری بھی یہی کام دھڑا دھڑ کر رہے ہیں، ہر بیان میں کھینچ کھانچ کر بات سلیکٹرز کی طرف لے آتے ہیں،پھر سندھ کارڈ سے بھی ڈراتے ہیں اور ملک میں مزید بنگلہ دیش بننے کی شرمناک باتیں بھی کرتے ہیں۔ایسے میں انہیں کوئی سافٹ کارنر کیسے مل سکتا ہے؟رہی بات نواز شریف کی تو وہ ایک ایسے اندھیرے راستے کو اپنا چکے ہیں،جس کی کوئی منزل نہیں، وہ ایک ایسی فتح چاہتے ہیں،جس کے لئے پہلے بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا۔……ژاں پال سارتر نے اپنے ایک مضمون ”خدا بننے کی خواہش“ میں کہا ہے کہ ہر انسان کے اندر خدا بننے کی خواہش ہوئی ہے،مگر جلد ہی اُسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس خواہش کا نتیجہ سوائے ذلت و رسوائی کے اور کچھ نہیں نکلتا۔سو دُنیا میں کوئی بھی رتبہ، عہدہ یا منصب پابندیوں کے ساتھ آتا ہے۔ کبھی یہ پابندیاں لکھے ہوئے آئین کی شکل میں ہوتی ہیں اور کبھی معروضی حالات کے نوشتے کی صورت میں،کامیاب وہی ہے جو توازن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اُسے برقرار رکھنے کے لئے لچک کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔

اس حوالے سے اگر پورے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو صرف دو نام ایسے سامنے آتے ہیں،جنہوں نے توازن برقرار رکھا ہوا ہے۔ ایک وزیراعظم عمران خان ہیں اور دوسرے شہباز شریف ہیں۔وزیراعظم خان کو مسٹر یو ٹرن بھی اپوزیشن کہتی ہے،مگر اس یو ٹرن کو لچک کہا جائے تو بہتر ہے۔ انہوں نے ایک بہترین لچک اُس وقت دکھائی، جب چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی۔اگر وہ اس معاملے میں نواز شریف والا رویہ اپناتے،کوئی سخت فیصلہ کرتے تو شاید معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا۔ انہوں نے اور بھی بہت سے ایسے یو ٹرن لئے جو بظاہر اُن کی اصول پسندی کے خلاف گئے،مگر اُن کے بہتر دور رس اثرات ظاہر ہونگے۔انہوں نے سب سے اہم ترین اصول یہ اپنایا کہ قومی اداروں سے ”جنگ“ نہیں کرنی،انہوں نے فوج، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ساتھ مثالی تعلقات رکھنے کی پالیسی اپنائی اور اس پر اب بھی کاربند ہیں۔ان کی یہی پالیسی ہے جس کی وجہ سے ماضی جیسی کوئی دراڑ نظر نہیں آ رہی اور فوج و سول حکومت میں بہترین تعلق کو ہر کوئی سراہ رہا ہے،حتیٰ کہ اپوزیشن کی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی ایسی دراڑ نہیں پڑ رہی،جس سے محاذ آرائی کا تاثر اُبھر سکے۔آزادی مارچ یا دھرنے کے حوالے سے عمران خان کی بے فکری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انہیں نہ تو کسی غیر آئینی دباؤ کا سامنا ہے اور نہ مستقبل میں اُس کی کوئی فکر ہے۔

اس سارے منظر نامے میں دوسری شخصیت شہباز شریف ہیں۔وہ انتہائی محتاط طریقے سے دامن بچا کر اپنی اننگ کھیل رہے ہیں،اُن کے چاروں طرف خاردار تار ہیں،مگر وہ اُن میں الجھے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔اس عمل میں انہیں حد درجہ تنقید کا سامنا بھی ہے اور نجانے اُن کی شخصیت کے بارے میں کیا کیا قیافے لگائے جا رہے ہیں،مگر اصل حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے خود کو ضائع نہیں ہونے دیا۔وہ آج بھی سب سے علیحدہ اور بھروسے کے آدمی نظر آتے ہیں،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ شہباز شریف بزدل ہیں،اِس لئے کوئی بولڈ قدم نہیں اُٹھا رہے تو وہ شاید سیاست کو پہلوانوں کا اکھاڑہ سمجھتا ہے،جس میں لنگوٹ کس کے بس اُترنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ شہباز شریف سیاست کو سیاست سمجھتے ہیں،اس میں کامیاب وہی رہتا ہے جو زور بھی بچائے رکھتا ہے اور اپنی پگڑی بھی کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دیتا۔


شہباز شریف پر آج تک یہ تنقید کی جاتی ہے کہ لندن سے واپسی پر وہ نو از شریف کے استقبال کے لئے جلوس سے ساتھ ایئر پورٹ نہیں پہنچے اور اِدھر اُدھر بھٹکتے رہے۔کیا یہ بہتر نہیں ہوا کہ شہباز شریف جلوس کو ایئر پورٹ نہیں لے گئے۔اگر وہ لے جاتے تو کیا نواز شریف گرفتاری سے بچ جاتے،یا انہیں وہاں خطاب کرنے کا موقع مل جاتا؟یہ احمقانہ بات ہے۔البتہ یہ ضرور ہوتا کہ ایک بڑے تصادم کی صورت پیدا ہو جاتی اور شاید بہت سی جانیں بھی ضائع ہو جاتیں، اس کا بحیثیت جماعت مسلم لیگ(ن) کو فائدہ نہ ہوتا، اُلٹا اُس پر ایک متشدد جماعت ہونے کا لیبل لگ جاتا۔ شہباز شریف سارا الزام اپنے سر لے کر پارٹی کو اس الزام سے بچا گئے۔ پھر انہوں نے اُس وقت بھی بڑی دانشمندی سے اپنا کردار نبھایا،جب مریم نواز عَلم بغاوت لے کر میدان میں نکلی تھیں اور اُن کا بیانیہ قومی اداروں کے خلاف تھا۔ اس موقع پر بھی شہباز شریف اپنے بیانات سے جلتی پر مٹی ڈالتے رہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ٹکراؤ کے راستے میں سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں رکھا، اور اب جبکہ ایک اور کڑا مرحلہ درپیش ہے، شہباز شریف اپنے پتے بڑی مہارت سے کھیل رہے ہیں۔

وہ خاندانی روایات کی وجہ سے اپنے بڑے بھائی کی حکم عدولی بھی نہیں کر سکتے،مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ اندھی گولی کی طرح اگر وہ چلے تو اپنی تباہی کا باعث بنیں گے۔انہوں نے نوازشریف کے اس حکم سے انکار نہیں کیا کہ مسلم لیگ(ن) کو مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کرنی چاہئے، لیکن انہوں نے طریقہ کار اپنی مرضی سے ترتیب دیا ہے۔انہوں نے دھرنے کے آپشن کو خارج از امکان قرار دیا اور ساتھ ہی آزادی مارچ میں شرکت کی بجائے 31اکتوبر کو اسلام آباد کے جلسے میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا۔آزادی مارچ کے ساتھ چلنے کی حکمت ِ عملی کو اسلام آباد میں مارچ کے استقبال سے تبدیل کر دیا۔گویا وہ تصادم کے ہر امکان کو رد کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔اس سے بڑی سیاسی تجربہ کاری اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے انکار بھی نہیں کیا اور اقرار بھی اپنی مرضی کا کر گئے۔صاف لگ رہا ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی طرح ہر دروازہ بند کرنے کے قائل نہیں، آج نواز شریف کو یہ مشکل درپیش ہے کہ وہ مصلحت کی بات کریں تو اُن کی سیاست ختم ہوتی ہے،اپنی ضد پر اڑے رہیں تو ایسی سیاست بچتی ہے،جس کا کوئی مستقبل نہیں۔ شہباز شریف نے ہر روزن کھلا رکھا ہوا ہے،اُن سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے مبہم منصوبے کی حمایت میں اپنا وزن ڈال دیں گے،ایک احمقانہ بات ہے۔اس وقت اُن کی حالت ایک ایسے ڈرائیورکی ہے،جس کی گاڑی ایک دشوار گزار راستے میں پھنسی ہوئی ہے،ایک طرف کھائی اور دوسری طرف منزل تک پہنچنے کا ٹیڑھا راستہ ہے۔ شہباز شریف اس ٹیڑھے راستے سے گزرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی جماعت، سیاست اور خاندان کو کھائی میں گرنے سے بچا سکیں۔

مزید :

رائے -کالم -