’یہی وہ طاقت ہے جس کی میں نے بات کی‘ فلم ڈائریکٹر جامی نے خود کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعے کی خبر نشر نہ ہونے پر سوال اٹھادیا

’یہی وہ طاقت ہے جس کی میں نے بات کی‘ فلم ڈائریکٹر جامی نے خود کے ساتھ پیش آنے ...
’یہی وہ طاقت ہے جس کی میں نے بات کی‘ فلم ڈائریکٹر جامی نے خود کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعے کی خبر نشر نہ ہونے پر سوال اٹھادیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) معروف پاکستان فلم ڈائریکٹر جامی آزاد نے خود کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعے پر میڈیا کی اچانک خاموشی کو معنی خیز قرار دیا ہے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں جامی آزاد نے کہا کہ ان کی ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعے کی خبر تمام میڈیا چینل نے ایک ہی وقت میں نشر ہونے سے روک دی ہے، اور یہ کسی غلطی کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے۔
جامی نے کہا کہ یہی وہ طاقت تھی جس کے بارے میں وہ بات کر رہے تھے۔ انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرکے سوال اٹھایا کہ سچ کی تلاش کرنے والے لوگ کہاں ہیں۔


خیال رہے کہ ڈائریکٹر جامی آزاد نے ٹویٹس کی ایک سیریز کے ذریعے بتایا تھا کہ کس طرح انہیں میڈیا کی انتہائی طاقتور شخصیت نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ’آخر کیا وجہ ہے کہ میں می ٹی مہم کی اتنی زیادہ حمایت کرتا ہوں؟ کیونکہ مجھے پتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے، ایک کمرے کے اندر، پھر عدالتوں کے اندر اور باہر اور کس طرح بچ جانے والا اپنی کہانی کو چھپاتا ہے ، کیونکہ مجھے انتہائی ظالمانہ طریقے سے میڈیا ورلڈ کے ایک انتہائی طاقت ور شخص نے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔‘
جامی آزاد کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے کو 13 برس گزر چکے ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ میں نے اس کی آنکھیں کیوں نہیں نوچ لیں، میں اس شخص کا بہت ہی قریبی دوست تھا ، اس کے میگا پراجیکٹس کرتا تھا ۔ ’ میں نے اس واقعے کے بارے میں جب اپنے دوستوں کو بتایا تو ان میں سے کسی نے بھی اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، میں نے اس شخص کا نام بھی بتایا لیکن دوستوں نے مذاق میں بات ٹال دی ۔ ‘
جامی آزاد نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد 6 مہینے تک وہ آغا خان ہسپتال میں اپنا علاج کراتے رہے جس کے بعد انہوں نے پاکستان چھوڑ دیا، ’جب میرے والد کا انتقال ہوا تو وہی آدمی اظہار تعزیت کیلئے آیا، اپنے باپ کی میت پر رونے کے بجائے میں اپنے ہی گھر میں چھپا ہوا تھا اور اپنی ماں کو کہہ رہا تھا کہ اسے اندر آنے سے روکیں ۔‘
جامی نے کہا کہ وہ آج بھی اس آدمی کا نام لینے کی ہمت جمع نہیں کرپارہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے پر ان کے اپنے دوست ہی مذاق اڑائیں گے۔ وہ اپنا یہ تجربہ صرف اس لیے شیئر کر رہے ہیں کیونکہ ان دنوں می ٹو مہم پر تنقید کی جارہی ہے، ایک غلط الزام پر ہونے والی موت پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سب لوگ ہی جھوٹ بول رہے ہیں، میں خود 13 سال بعد سامنے آیا ہوں ، ایسے واقعات میں 99 اعشاریہ 99 فیصد لوگ سچ ہی بول رہے ہوتے ہیں۔

مزید :

تفریح -