عالمی اردو کانفرنس:”اکیسویں صدی میں اردو غزل“

عالمی اردو کانفرنس:”اکیسویں صدی میں اردو غزل“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایف سی کالج یونویرسٹی لاہور کے زیر اہتمام عالمی اردو کانفرنس کا پہلا سیشن افتخار عارف، جلیل عالی، ڈاکٹر نجیبہ عارف، ڈاکٹر خلیل طوقار (ترکی)، ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم (مصر)کے نام شامل تھے۔
مہمانان خصوصی میں ڈاکٹر مرغوب احمد طاہر، ڈاکٹر ناصر علی سید، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری، ڈاکٹر شبیر احمد قادری، اور ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کے نام شامل تھے۔ جب کہ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر طارق ہاشمی،،ڈاکٹر عابد سیال، ڈاکٹر شیبا معید، ڈاکٹر محمد سعید، نوید صادق، ڈاکٹر شفیق آصف، ڈاکٹر ارم صبا کے نام شامل تھے۔ اس سیشن کی نظامت ڈاکٹرشاہد اشرف نے کی۔
دوسرے سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر غفور شاہ قاسم،اور ڈاکٹر طاہر شہیر نے سرانجام دیے۔ مجلس صدارت،ڈاکٹرعلی بیات،ڈاکٹر معین نظامی،، ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر اسلم انصاری، سویا مانے یاسر(جاپان)، ڈاکٹر احمد محمد احمد، ڈاکٹر علی بیات (ایران) کے نام شامل تھے۔مہمان گرامی میں ناصر علی، ڈاکٹر صائمہ ارم،ڈاکٹر روبینہ رفیق، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، فہیم شناس کاظمی کے نام تھے۔
رانا اعجاز حسین نے ”کویت میں اردو غزل رجحانات اور تجربات“ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا سماجی عمل کی تغیر پذیر روش کے پیش نظر غزل بھی اپنا رنگ تبدیل کرتی رہی ہے۔ مین تیس سال سے اپنی خانہ بدوشی کے سفر ناتمام کے باعث ریگزار کویت میں مقیم ہوں۔ انھوں نے کویت کے غزل گو شعرا کے حوالے سے بات کی اور غزل کے موضوعات پر خاص طور پر زیادہ تر جدید سانچوں پر بات کی۔ کویت کے شاعروں میں مسرت جیں زیبا، صداقت علی ترمذی، عیسیٰ بلوچ، ظہیر مشتاق وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ جو نشاعر کویت سے واپس لوٹ گئے ان میں باقی احمد پوری، عنبر فتح پوری، افروز عالم، نر بریلوی، کاشف کمال کے نام شامل ہیں۔
یاسمین کوثر نے کہا سیما کی غزل پر ترقی پسند تحریک کے اثرات بھی نظر آتے ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام کے بھی خلاف ہے اور مزدوروں کے حق میں بھی آواز بلند کرتی ہیں۔ ان کا قلم سچ لکھنے سے نہیں رکتا، ان کی شاعری عصر حاضر کی سچائی ا ور دل پہ گزرتی ہے قاری کے سامنے پیش کر دیتی ہے۔
کاروبار جہاں کے ستائے ہوئے
میرے مزدور ہیں بوجھ اٹھائے ہوئے
مقالہ نگار نے بات کرتے ہوئے کہا سائنس اور میڈیا کی ترقی نے دنیا کو گلوبل ولیج بنادیا ہے سماج کو تیزرفتار تغیر سے دوچار کردیا ہے۔جس کی وجہ سے برق رفتاری سے زندگی کے مسائل تبدیل ہورہے ہین۔اس کا ادراک مختلف شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ اسے تیز رفتار تبدیلی اور قدروں کا احساس ہے۔نئی راہ پر گامزن نظر آتا ہے۔ وہ آزاد ہے آزادی چاہتا ہے۔
ڈاکٹر صنم شاکر نے ”اکیسویں کی غزل کا منظر نامہ“ کے حوالے سے کہا کہ جدید غزل اردو گرد کی زندگی کے سب پہلوؤں کا احوال بیان کرتی نظر آتی ہے۔ صنفی تہذیب کا غزل ہورہا ہے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اردو غزل ان تمام معاملات کو بیان کر رہی ہے۔ گزشتہ دہائیوں سے اکیسویں صدی کی غزل مختلف ہے جس میں ندرت اور تازگی وتوانائی موجود ہے۔اس کے اشعار عصر حاضر کی افراتفری اور اخلاقی قدروں کی شکستگی حال کا استعارہ بن گئے ہیں۔
ڈاکٹر وحیدالرحمن نے ”مقدمہ غزل“ کے حوالے سے کہا کہ پہلے زمانہ تھا کہ ایک غزل چھیڑتا تھا دوسرا کہتا تھا کہ مجھے ساز دینا، مگر عہد رفتہ کی کہانی اور ہے موجودہ دور کے مسائل اور ہیں۔ اکسیویں صدی میں سانس لینا اہم نہیں ہے وقت کا جبر ہے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اکیسویں صدی بھی ہمارے سینے میں سانس لے رہی ہے اہم سوال یہ ہے۔
ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے اردو غزل میں خواتین کے حوالے سے بات کی۔ غزل میں صدیوں کی تہذیب پوشیدہ ہے اور جب یہ تہذیب پاکستان میں داخل ہوتی ہے تو اسے تہذیبی روایت کی وجہ سے مسئلہ بھی رہا۔ اسے پاکستانیت سے جوڑنا اردو غزل کے لیے ایک چیلنج بھی رہا۔ اسے جو تہذیبی ورثے سے روایت ملی تھی اس نے انھیں علامات کو استعمال کیا۔ ہمیں ابتدا میں کئی فکری رجحانات نظر آتے ہیں۔انھوں نے شاعرات کے حوالے سے، کشور ناہید، ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض،یاسمین حمید، عذرا عباس، فاطمہ حسن، نوشی گیلانی، کی غزل کے حوالے سے بات کی۔ 
ڈاکٹر ارشد نوشاد نے غزل کے رجحانات کے بارے میں کہا کہ زمانے کی تبدیلی کیساتھ ساتھ غزل نے بھی جو اپنے اندر تبدیلی ہے۔ اس نے وہی رجحانات اپنے اندر رکھے ہیں جو اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔بہت سے نئی شاعر بڑے عمدہ رنگوں کے ساتھ اس میدان میں اترے ہیں۔ ان بیس سالوں کا جو عرصہ ہے اس کو دیکھتے ہیں تو غزل ہئیت کے حوالے سے تو وہی ہے لیکن موضوعات اور لفظیات کی سطح پر اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عابد سیال نے اپنی گفتگو میں کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ عنوان کے قریب رہ کر سوچا جائے تو جو اردو غزل جو اکسویں صدی میں ہے اس میں نہ کوئی رجحان ہے نہ کوئی نیا تجربہ ہے جو پچھلی صدی کے تجربے ہیں ابھی تک ہم انھیں کو بروئے کار نہیں لاسکے۔نیا رجحان کوئی پیدا کرسکتا ہے جو بڑا شاعر ہو۔ میڈیاکر شاعر ایسا نہیں کر سکتا۔ولی اور پھرغزل کے دورزریں کی بات کی۔
اشرف کمال نے کہاکہ اکیسویں صدی کی غزل ہمارے انفرادی واجتماعی احساسات اور دلی جذبات کے ساتھ ساتھ بہت تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی رویوں اور ذہنی رجحانات کی آئینہ دار ی میں اہم کردار کی حامل رہی ہے۔ غزل نے انسان کے فکری انتشار اور اندرونی خلفشار کی عکاسی وترجمانی بھی عمدہ انداز میں کی ہے۔جدیدیت کے بعد مابعد جدیدیت اور اساطیر کے ساتھ ساتھ لوک کہانی،اور قصہ گوئی کے اجزا ئے ترکیبی کو بھی غزل میں اہمیت حاصل ہوئی ہے۔آج کی غزل میں شناخت کے لیے انسان ثقافتی جڑوں اور تہذیبی تشخص کی ضرورت کی بات کر رہا ہے۔اجتماعی لاشعور تہذیب، روایت اور فطرت سے ہم آہنگ ہورہا ہے۔
فہیم شناس کاظمی نے اپنی گفتگو میں کہا عالمی معاشرے کو تیزرفتار معاشرے سے دوچار کردیا ہے۔ عالمہ تہذیب وتمدن کا منظر نامہ کیا ہوگا مشرق ومغرب کی تفریق ختم ہونے کے نزدیک ہے، دو طبقات باقی رہنے کے اشارے واضح ہیں ایک حاکم دوسرا محکوم، جن کے پاس ثقافتی قوت اور زبان ہوگی وہی طبقہ زندہ رہے گا۔ اردو باقی رہے گی تو اردو غزل بھی زندہ رہے گی۔ دیگر مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر راشدہ قاضی،ڈاکٹر نثار دانش،ڈاکٹر اسحاق وردگ، ڈاکٹر رحمت علی شاد، ڈاکٹر ریحانہ کوثر،ڈاکٹر نثار ترابی کے نام بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر سعادت سعید نے صدارتی کلمات میں اردو میں غزل کے حوالے سے اکیسویں صدی کے تناظر میں بات کی۔ آخر میں ڈاکٹر اختر شمار اور ڈاکٹر نجیب جمال نے تمام شرکائے کانفرنس کا شکریہ ادا کیا۔
 نعتیہ مشاعرے
گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور میں وائس چانسلر محترمہ ڈاکٹر صاعقہ امتیاز آصف کی سرپرستی میں نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر طاہر چشتی، ڈاکٹر ارفتخار علی، ڈاکٹر صائمہ شمس، اشرف جاوید ملک، حافظ جمشید احمد اور صالحہ ظفر نے اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔ آخر میں صدر شعبہ اردو ڈاکٹر عاصمہ رانی اور محترہ وائس چانسلر ڈاکٹر صاعقہ امتیاز آصف نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔
اسی طرح گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں وائس چانسلر محترمہ ڈاکٹر روبینہ فاروق کی سرپرستی میں نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس کی مجلس صدارت میں ڈاکٹر ریاض مجید، اور پروفیسر ڈاکٹر مرغوب احمد طاہر شامل تھے۔ مہمانان خاص میں جناب سید صبیح الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر فخرالحق نوری، جناب عزیز احسن، جناب سجاد حیدر، پروفیسر انور محمود کالد، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحسن، جناب مقصود احمد، جناب تلک راج پارس، جناب طاہر سلطانی، جناب عامر سلیم بیتاب، جناب احمد شہریار، جناب عباس ثاقب، جناب عامر بن علیک، اور شاکر کنڈان کے نام شامل تھے۔ 
مہمانان اعزاز میں جناب مسعود چشتی افضل خاکسار، ڈاکٹر حمیدہ شاہین، ڈاکٹر اشرف کمال، سرور جاوید، ڈاکٹر طارق ہاشمی، دلاور علی آزاد، شہزاد نئیر، سید حب دار قائم، جناب فائق ترابی، جناب ابولحسن خاور، مبشر سعید، صابر رضوی، طاہر صدیقی، سمیعہ ناز، مسعود اختر، فاضل بخاری، سید طاہر، راحل بخاری، عقیل ملک، ریاض قادری، قمر رضا شہزاد، اشفاق بابر کے نام شامل تھے۔ اس کی نظامت ڈاکٹر شبیر احمد قادری نے کی۔ آخر میں صدر شعبہ اردو ڈاکٹر صدف نقوی نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔
٭٭٭

شعبہ اردو ایف سی کالج یونیورسٹی لاہورکے زیر اہتمام 

گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں نعتیہ مشاعرے، صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور کی تقریبات

مزید :

ایڈیشن 1 -