محبتِ رسول ﷺجزوِ ایمان۔۔۔۔
حضور نبی کریم ﷺ سے محبت کرنا فرض،واجب اور لازم ہے، یہ ایمان کا لازمی حصہ ہے، اسکے بغیر انسان مومن ہو ہی نہیں سکتا۔۔ محبت کی منجملہ علامات میں سے یہ ہے کہ تمام معاملات میں حضور نبی کریم ﷺ کی اطاعت و اتباع کی جائے۔اللہ رب العزت نے اپنی ذات باری کیساتھ محبت کرنے والوں کا دعویٰ محبت پرکھنے کیلئے اپنے آخری نبی و رسول حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کو معیار ٹھہرایا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ آپ ﷺ! ان (محبت کے دعویداروں)سے کہہ دیجیئے کہ اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو،اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اللہ تعالی معاف فرمانے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ( سورۂ آلٰ عمران )
ایمان کے وجود کا دارومدار محبت رسول اللہ ﷺ پر ہے۔۔۔ مسلمان اسی وقت کامیاب و کامران ہو گا جب کہ اسکے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت وعقیدت تمام مخلوقات سے زیادہ ہو۔۔۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ آپﷺ فرما دیجیئے کہ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال و دولت اور وہ تجارت جس کے کم ہونے سے تم ڈرتے ہو اور تمارے وہ گھر( رہائشگاہیں) جنھیں تم پسند کرتے ہو اگر تمہیں یہ اللہ تعالی اور اسکے ﷺ اور اسکی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ( پسند ) ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالی اپنا عذاب لے آئے اور اللہ تعالی فاسقوں (گمراہوں) کو ہدایت نہیں دیتا۔۔۔
سورۂ توبہ کی اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے آٹھ طرح کے لوگوں اور چیزوں کا تذکرہ فرما کر انسانیت کو اپنی ذات رحیم اور رسول کریمﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور اسے فوقیت نہ دینے والوں کو عذاب الٰہیہ کا مستحق ٹھہرایا ہے۔۔۔ علامہ ابن قیمؒ صراحتًا فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جو آدمی آپﷺ کو اپنی نفس سے زیادہ عزیز نہ رکھے وہ مومن نہیں، اولویت دو چیزوں کو شامل ہے ۔
(1)آپ ﷺ سے محبت وانس اپنی جان سے زیادہ ہو۔(2) انسان کا اپنے اوپر کوئی حکم نہ ہو بلکہ اسکے نفس پر رسول اللہ ﷺ کا حکم ایسے نافذ ہو جیسے آقا اپنے غلام اور باپ اپنی اولاد پر حکم چلاتا ہے بلکہ آپﷺ کا حکم اس سے بھی بڑھ کر ہو۔(الرسالتہ التبوکیہ)
محمد( ﷺ )سے محبت دینِ حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
بہت سی احادیث مبارکہ بھی وارد ہوئی ہیں جو ان دونوں آیتوں کے مدلول ہونے پر بڑے بلیغ انداز میں روشنی ڈالتی ہیں اور حبِ رسول کریمﷺ کو بڑے تاکیدی انداز میں بیان کرتی ہیں۔ بخاری شریف میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اسکے والد اور اسکی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
قارئین کرام!حب کے معنی لاڈ و پیار ،محبت والفت، انس و اخلاص،تعلق و میلان،دوستی ویارانہ کے ہیں۔ حب کو حِب بھی کہتے ہیں ۔محبت کرنے والے کو مُحِبّ کہا جاتا ہے۔ جس سے محبت کی جائے، اسےمحبوب یا مُحَبّ کہتے ہیں۔(لسان العرب)
امام ابو القاسم الحسین بن محمد المعروف امام راغب الاصفہامی رحمہ اللہ علیہ اپنی کتاب المفردات میں محبت کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ کسی چیز کو اچھا اور مفید سمجھ کر اس کا ارادہ کرنا، اسے چاہنا محبت ہے۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محبت طبیعت کا میلان ہے ،ایسی شۓ کی طرف جس سے لذت حاصل ہو ۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ علیہ اپنی کتاب رحمتہ للعلمین ﷺ میں حدیث مبارکہ ’وَالحب اساسی‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں محبت ہی قوتِ قلب ہے،محبت ہی غذائی روح ہے،محبت ہی قرۃ عین ہے، محبت ہی حیات الابدان ہے،دل کی زندگی،دل کی کامیابی بلکہ کامیابی کو دوام بخشنے والی ہے، الغرض محبت ہی سب کچھ ہے ۔
خواجہ یحییٰ معاذ رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں محبت ایک حال ہے، اسکی تعبیر الفاظ سے نہیں ہو سکتی یوں کہنا چاہیئے کہ
(محبت حال است و حال ہرگز قال نشود)
محبت ایک حال ہے جو کہ ہرگز قال نہیں بن سکتا۔
حضرت عبداللہ قرشی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محبت کی حقیقت یہ ہے کہ محب اپنا سب کچھ محبوب کے سپرد کر دے اور اپنے لئے کچھ بھی نہ چھوڑے۔ اسکی سب سے بہترین مثال حضرت سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کا عمل ہے کہ انہوں نے اپنا سارا مال آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
قارئین کرام! انسان دنیا میں جس سے بھی محبت وپیار کرتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ یا سبب ضروری ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ کسی شخص یا کسی چیز کو اپنا محبوب بنالیتا ہے۔ ان میں چار انتہائی اہم اور قابل ذکر ہیں 1-حسن وجمال 2-فضل و کمال۔ 3-قرابت و اتصال 4-احسان۔ آپ ﷺ کی ذات کریمہ میں یہ چاروں اوصاف جمیلہ بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں چانچہ ہر امتی کو ہر چیز سے بڑھ کر آپ ﷺ سے ہی محبت کرنی ہے اور محبت اطاعت واتباع کے بغیر ممکن نہیں۔اسلئے محبت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہیئے۔
قارئین کرام! ان چار اسباب کی وضاحت پیشِ خدمت ہے ۔
حسن وجمال.۔۔!!
کسی سے بھی محبت وانس کی پہلی وجہ حُسن وجمال ہے۔انسان خوبصورت شخصیت ،خوبصورت چیز یا خوبصورت منظر کو دیکھے تو دل بے اختیار اسکی طرف کھنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو ایسا حُسن وجمال عطا فرمایا کہ اسکو قلم سے بیان کرنا مشکل و ناممکن ہے۔
نازاں ہے جس پہ حُسن وہ حُسنِ رسولﷺ ہے
یہ کہکشاں تو آپ ﷺ کے قدموں کی دھول ہے
اے کاروانِ شوق یہاں سر کے بَل چلو
طیبہ کے راستے کا تو کانٹا بھی پھول ہے
ترمذی شریف میں حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے کسی نبی (علیہ السلام)کو مبعوث نہیں فرمایا جو خوش آواز اور خوش رو نہ ہو۔ہمارے (سیدنا ومولانا)نبی مکرم ﷺ ان سب انبیآء کرام علیھم السلام میں سے صورت میں سب سے زیادہ حسین اور آواز میں سب سے زیادہ احسن تھے۔
حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
واحسن منک لم تر قط عینی واجمل منک لم تلد النسآء
خلقت مبرآ من کل عیب کانک قد خلقت کما تشآء
ترجمہ ! آپ ﷺ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا،آپ ﷺ سے زیادہ خوبصورت بیٹا کسی عورت نے نہیں جنا۔گویا کہ آپﷺ ہر عیب سے ایسے پاک پیدا کیے گئے جیسا کہ آپ ﷺ نے چاہا۔
ام المؤمنین سیدہ طیبہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا فرمایا کرتی تھیں کہ آپﷺ کی آنکھیں اتنی حیا دار تھیں کہ میں نے عرب کی کنواری لڑکیوں میں بھی ایسی حیا نہیں دیکھی۔اگر زلیخا کی سہیلیاں آپﷺ کے چہرۂ انور کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کی بجائے دلوں کو کاٹ لیتیں۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے اشعار آپﷺ کی شانِ اقدس میں۔۔!
لنا شمسٌ وللآفاق شمسٌ
وشمسی خیرُ من شمسِ السماء ِ
فانّ الشمس تطلعُ بعد فجرٍ
وشمسی طالعٌ بعد العشاء ِ
ایک ہمارا سورج ہے، اور ایک آسمان کا سورج ہے
اور ہمارا سورج آسمان کے سورج سے کہیں بڑھ کر ہے
وہ سورج فجر کے بعد نکلتا ہے، اور میرا سورج عشاء کے بعد چمکتا ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رات کے وقت مسجد میں داخل ہوا تو آپﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کے سرِ مبارک پر چودھویں کا چاند چمک رہا تھا،میں تھوڑی دیر آپ ﷺ کے چہرہ انور کو دیکھتا اور پھر چاند کی طرف دیکھتا،بالآخر میرے دل نے فیصلہ دیا کہ فاذا ھو احسن عندی من القمر ( میرے آقاﷺ چاند سے زیادہ حسین ہیں )
چاند سے تشبیہ دینا یہ کہاں انصاف ہے
چاند پر ہیں چھائیاں ، مدنی کا چہرہ صاف ہے
حضرت سیدنا عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں آپﷺ کو دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں کو سکتا۔
حسیناں جمیلاں دا منہ موڑ دتاّ
محمد ﷺ بنا کے رب قلم توڑ دتّا
علامہ شمس الدین قرطبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کا پورا حُسن وجمال ظاہر نہیں کیا گیا ورنہ کوئی انسان دیکھنے کی تاب نہ لا سکتا۔
کائناتِ حُسن جب پھیلی تو لامحدود تھی
اورجب سمٹی تو تیرا نام بن کے رھ گئی
فضل وکمال۔۔۔۔!!!!
کسی سے محبت و پیار کی وجہ فضل و کمال بھی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اس قدر فضل وکمال عطا فرمایا کہ قرآن مجید میں نبی اُمّی کا لقب عطا فرمایا کہ آپﷺ دنیا میں کسی کے سامنے شاگرد بن کر نہ بیٹھے آپﷺ کو پڑھانے والا اور علم عطا کرنے والا خود ساری کائنات کا خالق ومالک و مختار تھا جس نے آپ ﷺ کو اتنا علم دیا کہ سورۂ نسآء میں فرمایا ترجمہ! اور آپ ﷺ کو اس چیز کا علم دیا جو آپﷺ نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالی کا آپﷺ پر بہت بڑا فضل ہے۔
قارئین کرام! جب بڑی ہستی کسی چیز کو بڑا کہے تو وہ واقعتا بہت بڑی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کی ذات سب سے بڑی ذات ہے۔اللہ اکبر کبیرا۔اللہ تعالی نے آپﷺ پر اتنا فضل فرمایا کہ اس کیلئے عظیماً کا لفظ استعمال فرمایا۔
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا، اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا۔۔۔۔!!!
وہ راز اک کملی والے ﷺ نے بتا دیا چند اشاروں میں
( مولانا ظفر علی خانؒ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: مجھے دیگر انبیاءکرام(علیھم السلام) پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لئے اموال غنیمت حلال کئے گئے ہیں اور میرے لئے (ساری) زمین پاک کر دی گئی اور سجدۂ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء کرام (علیھم السلام) کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ ‘‘ (مسلم و ترمذی )
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں ساری اولادِ آدم علیہ السلام کا سردار ہوں اور یہ اظہار فخر کے طور پر نہیں کہتا،سب سےپہلےمجھ سےزمین شق ہوگی،میں سب سےپہلےشفاعت کرنےوالا ہوں اورسب سےپہلےمیری شفاعت قبول کی جائے گی،میرے ہاتھ میں (اللہ تعالیٰ کی) حمد کا جھنڈا ہوگا جس کے نیچے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ تمام لوگ ہوں گے۔(ابن حبان)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین آپﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں آپﷺ باہر تشریف لائے جب اُن کے قریب پہنچے تو اُنہیں باہم کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔اُن میں سے بعض نے کہا: کیا خوب! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے سے زیادہ بڑی بات کیا ہے؟ اور ایک دوسرے شخص نے کہا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اﷲ اور روح اللہ ہیں۔ کسی تیسرے شخص نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ آپﷺ اُن کے پاس تشریف لائے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں۔ بیشک وہ ایسے ہی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں۔ بیشک وہ اسی طرح ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں۔ واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا۔ وہ بھی یقینا ایسے ہی (شرف والے) ہیں۔ سن لو! اور میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور میں یہ بطور فخر اظہار نہیں کر رہا ہوں۔ میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور یہ بطور فخر نہیں کہتا۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور میں یہ بطور فخر اظہار نہیں کر رہا ہوں۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے لیے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقیر و غریب مومن ہوں گے اور میں یہ بطور فخر اظہار نہیں کر رہا ہوں۔ میں اولین و آخرین میں اللہ تعالیٰ کے حضور سب سے زیادہ عزت والا ہوں اور یہ میں بطور فخر نہیں کہتا (بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کر رہا ہوں)۔‘ (ترمذی شریف)
حُسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
تیرے کمال کسی میں نہیں، مگر دو چار (مولانا قاسم نانوتویؒ )
آپ ﷺ کے اوصاف جمیلہ اور کمالات عجیبہ کے بارے میں شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
بلغ العُلٰی بکمالہ ،کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیعُ خصالہِ ، صلو علیہ وآلہ
قرابت و اتصال۔۔۔۔!!
کسی سے محبت وانس کی ایک وجہ قرابت و اتصال ہوتی ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ کا اپنی امت سے قرابت واتصال کا انداز سورۂ احزاب کی اس آیۂ مبارکہ سے ہو جاتا ہے (ترجمہ)(حضور )نبی کریم ﷺ! مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپﷺ کی اَزواجِ (مطہّراتؓ) اُن کی مائیں ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)
محمد ﷺہے متاعِ عالَمِ ایجاد سےپیارا
پِدَر، مادربِرادر مال جاں اولاد سے پیارا
محمد ﷺ کی محَبّت دینِ حق کی شرطِ اوَّل ہے
اِسی میں ہواگر خامی تو سب کچھ نامکمّل ہے
محمد ﷺکی غلامی ہے سَنَدآزاد ہونے کی
خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اسکے والد اور اسکی اولاد اور دنیا کے سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری شریف)
نہ جب تک کٹ مروں میں شاہِ بطحہﷺکی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
نماز اچھی،حج اچھا روزہ اچھا ہے،زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلمان ہو نہیں سکتا۔
احسان ۔۔۔۔!!!
محبت وپیار کا ایک سبب محبوب کا محسن ہونا بھی ہے۔ عربی زبان کا مشہور مقولہ ہے الانسان عبدالاحسان۔ اسی طرح کسی نے خوب کہا ہے کہ دلوں کی فطرت ہے کہ جو ان پر احسان کرے اس نے محبت کرتے ہیں۔ آپﷺ کے امت پر اس قدر احسانات ہیں کہ ان کو احاطہ کرنا،انہیں قلم بند کرنا مشکل و ناممکن ہے اللہ تعالی نے تو آپ ﷺ کی بعثت کو ہی پوری انسانیت کیلئے اپنا احسان عظیم قرار دیا اور سورت توبہ میں ارشاد فرمایا ترجمہ ! بیشک تمہارے پاس ایک رسول ﷺ آئے ہیں جو تمہی میں سے ہیں، جو چیز تمہیں نقصان پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گزرتی ہے، وہ تمہاری (بھلائی) کے انتہائی حریص ہیں اور ایمان والوں کیلئے انتہائی شفیق اور نہایت مہربان ہیں۔
حدیث مبارکہ میں وارد ہوتا ہے کہ آپ ﷺ رات بھر عبادت فرماتے اور اپنی گناہگار امت کیلئے دعائے مغفرت فرماتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک متورم ہو جاتے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا روایت فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ساری رات آپ ﷺ سورۂ مائدہ کی یہ والی آیت تلاوت فرماتے رہے۔ترجمہ ! اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور آپ مغفرت کر دیں تو آپ زبردست حکمت والے ہیں۔
اور دوسری روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ بہت دیر تک سربسجود ہو کر اپنی امت کیلئے دعائے مغفرت فرماتے رہے تو اللہ رب العزت کیطرف سے پیغام آیا کہ آپﷺ کیوں روتے ہیں ؟ ہم آپ ﷺ کو راضی کریں گے۔ (مسند احمد،مصنف ابن ابی شیبہ )
چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ ۔ ترجمہ ! عنقریب تیرا رب تجھے اتنا عطا کرے گا کہ تو راضی ہو جائے گا (سورہ والضحٰی ) جب نبی کریمﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں داخل نہ ہوجائے۔
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی (علیہ السلام) نے کچھ چیزیں مانگیں یا فرمایا کہ ہر نبی (علیہ السلام) کو ایک دعا دی گئی جس چیز کی اس نے دعا مانگی پھر اسے قبول کیا گیا لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔(بخاری شریف )
ہوں لاکھوں سلام اس آقاﷺ پر بت لاکھوں جس نے توڑ دیے
دنیا کو دیا پیغام سکوں طوفانوں کے رخ موڑ دیے
اس محسن اعظم ﷺ نے کیا کیا نہ دیا انسانوں کو
دستور دیا منشور دیا کئی راہیں دیں کئی موڑ دیے