کیا معاشرے میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟؟
یہ درویش اپنے ہم عصر دوستوں اور بالخصوص نوجوانوں سے مخاطب ہے۔ سب سے پہلے یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ خاکسار اپنی ذاتی زندگی میں کوئی تشنگی یا کمی محسوس نہیں کرتا مگر اپنے معاشرے کے حالات مجھے بہت ٹینشن دیتے ہیں۔
میں سوشل میڈیا اور میل ملاقاتوں سے اکثر اپنے لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کی سوچ کا جائزہ لیتا ہوں۔ اور اس وقت تک میری رائے کے مطابق سب ہی راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ کسی کو زعم ہے کہ وہ بڑا مذہبی اور پرہیزگار ہے۔ جس سے وہ دوسروں سے افضل ہے۔ کوئی اپنی تعلیمی ڈگریوں پر نازاں ہے۔ تو کسی کو کوئی سرکاری عہدہ مل گیا ہے تو وہ دوسروں کو کم تر سمجھنے لگا ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں یا ڈگریوں کے باوجود معاشرے میں کوئی مقام نہیں وہ کبھی نظام کو کوستے ہیں تو کبھی اپنے سیاستدانوں کو بدعنوان کہہ کر ان پر مغلظات برساتے ہیں۔ کچھ کے خیال میں اس ملک کو سول بیوروکریسی کی دیمک چاٹ گئی ہے تو کچھ فوجی افسران کو اس ملک کی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ سب اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ فرد سے بنتا ہے اور میں بھی اس معاشرے کا ایک فرد ہوں اور میرا بھی کوئی کردار ہوگا۔ وہ اس پر بھی غور نہیں کرتے کہ فرد اور ریاست کے بیچ بھی ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ جس کی رو سے ریاست فرد کو تحفظ دیتی ہے اور فرد ریاست کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ کی ضمانت دینے میں کوتاہی کرے تو پھر شہری صرف ریاست ہی سے بدظن نہیں ہوتے بلکہ اپنے اردگرد دوسرے انسانوں کی تکلیف اور درد سے بھی بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ اس طرح پھر ریاست کا انتظام مجروح ہوتا ہے اور انسانی ہمدردی ماند پڑ جاتی ہے۔ ہم اب اسی مقام پر ہیں۔ جہاں ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ کی ضمانت دینے کی بجائے ان کو بیگناہ قتل ہوتے دیکھتی ہے۔ اور ان کی لاشیں ہسپتال کی چھت پر پھینک دیتی ہے۔ اور ہماری ریاست کے شہریوں کی بھاری اکثریت کو ریاست سے تعلق ہے نہ اپنے اردگرد کے اپنے لوگوں سے غرض ہے۔ بلکہ وہ اپنی ذات میں مگن اور اپنے گھر کی دیواروں کو مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ جب معاشرے میں بدامنی ہو اور لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتبار اٹھ جائے تو پھر کوئی دیوار کمزور ہو یا مضبوط وہ آپکا تحفظ نہیں کر پائے گی۔
اب سوچنے والی بات ہے کہ ہم ان حالات تک کیسے پہنچے؟ سیدھی سی بات ہے کہ ہمارے رہبر درست نہ تھے۔ لیکن ان رہبروں کو ہمارے اوپر مسلط کس نے کیا؟ آپ کہہ سکتے ہیں۔ کہ طاقتور اداروں نے کیا، لیکن ووٹ کی پرچی تو آپ نے بھی دی ہوگی نا! جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اس وقت قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اس کے 3 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج وصول ہو رہے ہیں جن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف بھاری اکثریت سے جیت رہی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کو طاقتور اداروں کی آشیرباد حاصل ہے۔ یہ فیصلہ عوام کا ہی تو ہے۔ اگر یہ بات سمجھ آ جائے تو اگلا سوال یہ ہے کہ ان حالات سے نکلنا کیسے ہے؟ کون نکالے گا؟ ایک ایسی ریاست جس میں انصاف نہیں، وسائل کی تقسیم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ کسی کو کسی پر اعتبار نہیں ہے۔، علاقائی، مذہبی، سماجی اور سیاسی تقسیم اور تعصب اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ تو پھر اس ملک کے بارے میں امریکی صدر کوئی ہرزہ سرائی کرے یا اپنے مسلم برادر ملک اعتبار نہ کریں تو ان کو برا کہنے کی بجائے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا چاہیے۔ میرے وطن کے بزرگ اور ہمارے ہم عصر تو جو گل کھلا گئے سو کھلا گئے مگر آج کی نوجوان نسل کے پاس کیا ہے؟ کیا نوجوان نسل اپنے خیالات میں بھی بکھری اور بے یقینی کا شکار نہیں ہے؟ کیا ہمارے نوجوان عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں؟ نہیں بالکل بھی نہیں، بلکہ ہمارے نوجوانوں کو جو بیانیہ کہیں سے ملتا ہے اسی کو اپنا لیتے ہیں۔ کاپی پیسٹ ہیں۔ تضادات کا شکار ہیں۔ مذہبی ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں۔ تنقید بھی کرتے ہیں تو متعصبانہ کرتے ہیں اور خود تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں۔ ہر نوجوان یورپ کو برا سمجھتا اور کہتا ہے لیکن خود ہر حال میں یورپ پہنچنا چاہتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام دماغوں کو ہوا دینے اور عصر حاضر کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے گھٹن کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ہمارے اساتذہ اپنا کام بھول کر اپنا مقام بھی کھو بیٹھے ہیں۔ کتاب پڑھنے کا رجحان ہے نہ کھیلوں کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ تحریر کی مزید طوالت سے بچتے ہوئے گزارش کرتا ہوں کہ ہمارے جن لوگوں کو موجودہ حالات پر فکرمندی ہے۔ وہ اپنے اپنے کردار کا جائزہ لیں، خود سے سوال کریں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو ہر طرح کا سوال کرنے کی اجازت دیں۔ سوال ہوگا تو مکالمہ آگے بڑھے گا، مکالمے سے ہی راہیں نکلیں گی۔ مذہبی گھٹن نے بھی ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ مذہبی گھٹن کیا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ اسلام سے دوری اختیار کریں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ اسلام کو اپنائیں، جب آپ مذہب اور دین کے فرق کو سمجھ جائیں گے اور دین کو اجتماعی تناظر میں دیکھنا شروع کریں گے تو پھر مذہبی گھٹن سے چھٹکارہ مل جائے گا۔