دورے دُوریاں الیکشن اور سلطانی

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ کبھی تو اتنی قربت کہ امریکہ پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا بحری بیڑا بھیجنے کا اعلان کرتا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت ہوتی ہے تو امریکہ اور پاکستان مل کر سوویت یونین کا افغانستان میں قبرستان بنا دیتے ہیں۔ سوویت یونین روس کی حد میں سمٹ جاتا ہے۔ ایک اور وار امریکہ پھر افغانستان میں طالبان کیخلاف خود لڑتا ہے۔ جس میں پاکستان اپنی سر زمین، کئی دفاعی تنصیبات اس کے حوالے کردیتا ہے۔ دوریوں کی بات کریں تو بھارت کی لگائی بجھائی، سازشوں، پراپیگنڈے سے متاثرہو کر امریکہ پاکستان کو سبق تک سکھانے کی دھمکیوں تک اتر آتا ہے۔
عمران خان اقتدار میں آتے ہیں تو دوریوں میں مزید اضافہ ہوا۔ ان کا ابسولیوٹلی ناٹ کہنا برداشت سے باہر اور بھی بہت کچھ، امریکہ کے اشتعال میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان میں حکومت تبدیل ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد اقتدار میں آتاہے تو عمران خان کی کئی پالیسیوں میں تبدیلی کر لی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی ہیں۔ عسکری اور سیاسی قیادتیں امریکہ کے ساتھ روابط بڑھاتی ہیں۔ پاکستان امریکہ تعلقات ایک بار پھر قربتوں کی نئی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔ حکومت کو مخالفین پاک امریکہ تعلقات میں نئے زاویے متعارف ہونے کے باعث ”امپورٹڈ حکومت“ کے طعنے بھی دیتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کو امریکہ دورے کے دوران جوبائیڈن انتظامیہ ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری دو ہفتے امریکہ میں گزارتے ہیں۔ ان کا دورہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ جن کی ریٹائرمنٹ کی منزل قریب ہے۔ وہ ایک ہفتے کا دورہ کرتے ہیں اسے بھی پاک امریکہ تعلقات میں قربت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کا دورہ امریکہ اپنے باس کے دورے سے قبل کئی معاملات کو استوار کرنے میں معاون رہا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی اپنے دورے کے دوران امریکہ سے پاکستان کے لیے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر کی حکام کے ساتھ ملاقاتیں بھی تعلقات میں گرم جوشی کی نوید سنا رہی ہوتی ہیں۔ اس دوران اچانک صدربائیڈن کی ایک تقریب کے دوران پاکستان کو خطر ناک ملک قرار دیتے ہوئے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے پر بھی سوال اٹھا دیتے ہیں۔ بائیڈن کا یہ پالیسی بیان تھا یا نہیں۔ مگر یہ بے وقت کی راگنی پاکستان میں امریکہ کے حامیوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی۔ اس پر وزیر خارجہ وزیر اعظم اور دفتر خارجہ کے ساتھ ساتھ کور کمانڈرز کو بھی رد عمل دینا پڑا۔ کورکمانڈرز کانفرنس میں کہاگیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔ سٹریٹجک اثاثوں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے متعلق سیکورٹی پر مکمل اعتماد ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی بعینہٖ یہی کہا ہے۔ گویا پوری قوم ایٹمی اثاثوں کی سیکورٹی سے مطمئن اور ایک پیج پہ ہے۔ویسے تو کئی دیگر معاملات پر بھی حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر آرہی ہیں جس کی تازہ ترین مثال اسحاق ڈار کا امریکہ سے واپسی پر یہ بیان ہے۔”اگر بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ان سے تیل لیں اور ہمیں اس سے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اگر ہمیں روس سے بھارت کی نسبت کم قیمت پر تیل ملا تو ضرور لیں گے۔“عمران خان بھی یہی کہتے تھے۔
امریکی حکومت کے ترجمان کی طرف سے اب کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظتی صلاحیت پر پورا یقین ہے۔ اگرایسا ہی ہے تو بائیڈن صاحب کا بیان گناہِ بے لذت کے زمرے میں آتا ہے۔
اُدھر پاکستان کے اندر سیاسی رسہ کشی "جوبن" پر ہے۔ انتخابات کے انعقاد کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔ عمران خان اپریل کے آغاز سے فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نومبر آیا چاہتا ہے۔ وہ انتخابات کو کھینچ کر زمانہ حال کی دہلیز پر لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ حکومتی اتحادی اسے مقررہ وقت جو ممکنہ طور اکتوبر2023ء ٹھہرتا ہے۔اس سے بھی کچھ پَرے لے جانے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔ ایسا سرِ دست ممکن نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات ذاتیات اور دشمنی کی حد تک چلے گئے ہیں۔ اس دوران ایک دوسرے کے لیے بڑے بڑے لیڈر جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ اخلاقیات کو تباہ کئے دے رہی ہے۔ جولائی میں پنجاب میں اور اب پنجاب کے علاوہ کے پی کے اور سندھ میں ہونے والے انتخابات تحریک انصاف کی برتری کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس ماحول میں حکومتی اتحادصرف ایک ہی صورت میں قبل از وقت انتخابات میں جا سکتا ہے جب وہ بجلی کی قیمت نصف کر دے،پٹرولیم اور ڈالر کو کم از کم اس سطح پر لے آئے جس پر ان کے اقتدار میں آنے سے قبل تھی۔
سیاسی ٹمپریچر کو کم کرنا ہے تو تھوڑی گنجائش خان صاحب اور تھوڑی حکومتی اتحاد نکال لے۔ مارچ اپریل انتخابات کے انعقاد کے لیے بہتر آپشن ہو سکتا ہے۔ یہ اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔ خان صاحب لانگ مارچ کریں یا کوئی اور حکمتِ عملی اپنائیں آج کی حکومت کو قبل از وقت الیکشن پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ موجودہ مخدوش سیاسی حالات کا بھی پاکستان تادیر متحمل نہیں ہو سکتا۔ مفتاح صاحب چلے گئے، اسحق ڈار صاحب آگئے۔ شروع میں معیشت میں کچھ بہتری نظر آئی اب پھر وہی ڈگر ہے وہی سفر ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے سیاسی استحکام اولین شرط ہے۔ جس میں ہر پارٹی کی برابرشرکت لازم ہے۔ کسی ایک پارٹی کو کارنر کرنے سے سیاسی استحکام کا حصول محض ایک خواب ہوگا۔ اب جو بھیانک خواب بن رہا ہے۔
مرکز میں پی ڈی ایم اتحاد، پنجاب اور کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان" مخلوط" حکومت ہے۔ آج کل ہر حکومت اپوزیشن کا گلا ناپ رہی ہے۔ لیڈروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، کہیں تشدد ہوتا ہے اس کا کل حساب آج کے یہ سب کچھ کروانے والے حکمرانوں سے زیادہ ان افسروں کو دینا ہے جو ناجائز احکا مات مانتے ہیں۔ انجام کار کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی سیکورٹی فورس کے ڈی جی مسعود محمود کو یاد کریں۔ جو بھٹو کے زوال کے بعدمعافی مانگے کے لئے جنرل ضیاء الحق کے پاؤں پڑا توعینی شاہدین کے مطابق ضیاء نے ٹھڈا مار دیا تھا بہر حال اسے معافی مل گئی وہ احمد رضا خان قصوری کے والد کے قتل میں سلطانی یعنی معاف گواہ بن کر جان بخشی کرا گیا مگردیگرچار افسر جو سلطانی گواہ بنے تھے ان کو پھانسی دیدی گئی۔ان میں ڈپٹی ڈائریکٹرآپریشنزاینڈ انٹیلی جنس محمد عباس،انسپکٹرغلام مصطفیٰ اور غلام حسین بھی شامل تھے۔یہ بھی کہا جاتا ہے ان سب کو ٹریپ کیا گیا تھا۔ لہٰذاآج شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری کرنے والے ذرا سوچ کر ذرا سمجھ کر جو کرنا ہے کریں۔کل سلطانی گواہ بننے کیلئے سفارشیں کراتے نظر آئیں گے۔