کل شیدے ریڑھی والے نے پھر میرے ذہن کو خوب آزمایا، چھٹی کا دن تھا میں خود سبزی خریدنے اُس کے پاس چلا گیا اور پھر اُس کے سوالوں کی زد میں ایسا آیا کہ سبزی خریدنا بھول گیا،شیدا میرے نزدیک عوامی نبض جانچنے کا ایک بیرو میٹر ہے۔عوام کیا سوچ رہے ہیں،مجھے شیدے کی باتوں اور سوالوں سے اندازہ ہو جاتا ہے،کہنے لگا بابو جی رات آپ کتنے بجے سوئے تھے؟ میں حیران ہوا کہ یہ کیا سوال ہے،پھر خود ہی بتانے لگا کہ میں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھا دیکھ رہا تھا کب کیا ہوتا ہے؟ لمحہ بہ لمحہ ایسے خبر آ رہی تھی جیسے انتخابات کی شام نتیجے کی آتی ہے۔سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی خبریں اور یہ خبریں کہ آئینی ترامیم کی اُن میں پیش کی جانے والی ہیں، بہت سنسنی خیز ڈرامے کے مترادف تھیں، میں سوچنے لگا ابھی تو شیدا صرف میٹرک پاس ہے کچھ اور پڑھ جاتا تو نجانے اُس کا ذہن کیسے کیسے قلابے ملاتا ”کیا آپ بھی یہ سب دیکھ رہے تھے؟“ اُس نے پوچھا: میں نے کہا نہیں، شیدے میں تو ایک ولیمے پر گیا ہوا تھا، رات بہت دیر سے فراغت ملی اور آتے ہی سو گیا۔تمہیں تو معلوم ہے مجھے جلدی اُٹھنے اور صبح واک کرنے کی عادت ہے۔کہنے لگا بابو جی پھر تو آپ اچھے رہ گئے وگرنہ ہماری طرح ذہن خراب کرتے، پھر اُس نے پوچھا: ویسے بابو جی یہ سب ہو کیا رہا ہے،اب تو کئی ہفتے ہو گئے حکومت ہماری بات ہی نہیں کرتی، کوئی خوشخبری ہی نہیں سناتی کہ ملک میں مہنگائی کم ہونے والی ہے،بجلی سستی ہو جائے گی اور اشیاء کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی۔اب تو دن رات ایک ہی خبر نظر آتی ہے،وزیراعظم شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ہوئی،آئینی پیکیج پر اعتماد میں لیا،اتفاق رائے پایا گیا، پھر شام کو یہ خبر آ جاتی ہے بلاول بھٹو زرداری،مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے لئے پہنچ گئے۔بلاول بھٹو زرداری نے مولانا کو راضی کر لیا اور تمام اختلافات دور ہو گئے۔تیسری خبر بھی مولانا فضل الرحمن سے متعلق ہوتی ہے کہ تحریک انصاف کے وفد نے اُن سے ملاقات کی اور مل کر چلنے کا فیصلہ کیا۔یہ آخر ہے کیا؟ عوام تو میری طرح پاگل ہو گئے ہیں۔شیدے کی ایسی باتیں مجھے احساس دِلاتی ہیں کہ وہ عوام جنہیں ہمارے سیاستدان مٹی کے مادھو سمجھتے ہیں،سب کچھ بڑی ذہانت اور عقل کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔انہیں معلوم ہوتا ہے وہ عوامی نمائندے یا وہ حکومت جو اُن کا نام لے لے کر زبان خشک کر لیتی ہے،جب اپنے مفادات میں الجھتی ہے تو اسے اپنا ایک وعدہ بھی یاد نہیں رہتا۔
شیدے ریڑھے والے نے سب سے دلچسپ سوالات بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے کئے۔اُس نے پوچھا بابو جی آخر بلاول بھٹو کو ان ترامیم کی اتنی فکر کیوں ہے؟ وہ دن رات اسی کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اب تو دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں کہ اگر اُن کی بات نہ مانی گئی تو زبردستی یہ ترامیم منظور کرا لیں گے،ابھی میں اس کا جواب دینے کے لئے پَر تول رہا تھا کہ اُس نے کہا ”بابو جی سننے میں آیا ہے بلاول بھٹو زرداری کو اگلا وزیراعظم بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے اگر وہ یہ ترامیم کرانے میں کامیاب رہتے ہیں“۔واہ واہ کیا بات ہے، میں نے سوچا،ابھی کل رات ایک ولیمے کی دعوت پر بھی دوستوں سے یہی باتیں ہو رہی تھیں اور بلاول بھٹو زرداری کے کردار پر سوالات پوچھے جا رہے تھے۔وہاں بھی کچھ دوستوں نے یہی کہا بلاول بھٹو زرداری کو ہنی ٹریپ کیا گیا ہے،انہیں یہ ٹاسک دے کر میدان میں اتارا گیا ہے کہ وہ 26وی آئینی ترمیم کے لئے راہ ہموار کریں،یہ تک بھی کہا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری آج کل ایسی باتیں کر رہے ہیں جو پیپلزپارٹی کی جمہوری تاریخ کے خلاف ہیں،وہ یہ بھول گئے ہیں اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے جب1973ء کا آئین بنانے کی کوششیں شروع کی تھیں تو اتفاقِ رائے کے لئے ایک ایک سیاست دان کے پاس جاتے تھے،انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا اگر کسی نے میری بات نہیں مانی تو میں سختی کروں گا اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کر کے آئین بنا لوں گا،انہوں نے اس حوالے سے کسی جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا اور نہ ڈیڈ لائن دی تھی۔پیپلزپارٹی ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کے طور پر معروف رہی،مگر آج بلاول بھٹو زرداری کے بیانیے کی وجہ سے لگ رہا ہے،اُس سے زیادہ پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت کوئی نہیں۔خیر اِس وقت تو میں شیدے ریڑھی والے کے کٹہرے میں کھڑا تھا۔میں نے کہا شیدے ہر سیاستدان کی خواہش تو یہی ہوتی ہے وہ ملک کا وزیراعظم بنے،اگر بلاول بھٹو زرداری کی بھی یہ خواہش ہے تو کوئی انوکھی بات نہیں البتہ تمہاری یہ بات درست ہے اِس وقت آئینی ترمیم کے لئے بلاول بھٹو زرداری دن رات ایک کئے ہوئے ہیں،حالانکہ اِس وقت سیاسی میدان میں وہ سب سے کم عمر ہیں۔اپنی دوگنی عمر کے رہنماؤں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور پھر یکطرفہ طور پر بیان بھی دیتے ہیں کہ میں نے انہیں قائل کر لیا ہے۔
میں نے موضوع بدلنے کے لئے پوچھا سناؤ کوئی سبزی سستی بھی ہوئی ہے؟ اُس نے قہقہہ لگایا ”بابو جی مذاق نہ کریں آپ تو سب جانتے ہیں“۔میں نے کہا نہیں،کافی دِنوں سے خریداری کا یہ کام بیگم صاحبہ ہی کرتی ہیں اِس لئے زیادہ علم نہیں،اس پر وہ بولا کبھی آپ کو نہیں بتاتیں جو پیسے آپ انہیں دیتے ہیں،اُن میں گذارہ نہیں ہوتا۔میں نے کہا یہ شیدا بھی کوئی بہت ہی پہنچی ہوئی چیز ہے،ابھی کل ہی اہلیہ نے یہ دھمکی دی تھی اگر اِس بار بھی مہینے کا خرچ نہ بڑھایا تو میں خریداری اپنے ذمے نہیں لوں گی،پھر آپ ہی سودا سلف لے کر آنا۔ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے آپ وہی لگے بندھے پیسے دیتے ہیں،شیدے کی یہ بات سن کر مجھے اتنی تسلی تو ضرور ہوئی کہ زوجہ محترمہ صرف مجھے لوٹنے کے لئے ایسی باتیں نہیں کر رہیں،حالات واقعی بہت گمبھیر ہو چکے ہیں۔شیدا پوچھنے لگا بابو جی آپ کتنی دیر سے میرے پاس کھڑے ہیں آپ کی موجودگی میں کتنے گاہک آئے ہیں؟ میں نے کہا ایک بھی نہیں،اُس نے کہا آپ اندازہ لگائیں اب لوگوں کے پاس سبزیاں پھل خریدنے کے بھی پیسے نہیں،سب کو مل کر اس طرف توجہ دینی چاہئے تھی،مگر یہاں دن رات صرف آئینی ترامیم کا بخار چڑھا ہوا ہے۔اب بتائیں میں اسے کیا جواب دیتا۔