ترکی اور اس کی فوج                        (1)

Oct 21, 2024

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

اقبال نے اپنی وفات سے تقریباً دس برس پہلے ”طلوعِ اسلام“ کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی تھی۔ اس کا ایک شعر ہے:

پھر اُٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی

زمیں جولاں گہِ اطلس قبایانِ تتاری ہے

مصطفی کمال اتاترک اور اقبال کا سن وفات ایک ہی ہے (1938ء)۔ اقبال، مصطفی کمال سے تقریباً 6 ماہ پہلے فوت ہو گئے تھے، انہوں نے اتاترک پر تنقید بھی کی ہے اور ان کی تعریف بھی کی ہے۔ ان کا یہ شعر بھی مشہور ہے جو ”ہلالِ عید“ نامی نظم میں (بانگ درا میں) ملتا ہے:

چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

”اقبال اور ترکی“ ایک مستقل بالذات موضوع ہے جس پر بہت سا مواد موجود ہے لیکن ترک آرمی کی ابتداء کہاں سے ہوئی اور اس کا تدریجی ارتقاء کن ادوار سے گزرا، اس پر اردو میں بہت کم تحریری مواد ملتا ہے۔ ہم اس موضوع پر اس کالم میں قارئین کے سامنے چند حقائق رکھنا چاہتے ہیں:

ترکوں کی ابتداء

ترک ایک خانہ بندوش قوم تھی جو مشرقی اور وسطی ایشیا میں چھٹی صدی عیسوی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ خانماں بردوش پھرتی رہتی تھی۔ یہ قوم ایک جنگجو اور بہادر قوم تھی جس کی پرورش میں جغرافیائی عوامل کا بڑا ہاتھ تھا۔ یہ لوگ اکثر اوقات مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ کی آبادیوں پر حملہ آورہو کر ان کو ویران اور برباد کرتے رہتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان لوگوں نے ایک زبردست سلطنت قائم کرلی جو چین کی سرحد سے لے کر بحر اسود تک پھیلی ہوئی تھی۔

ترکوں کا عربوں سے پہلا رابطہ پہلی صدی ہجری میں اموی خلیفہ ولید اول کے عہد میں ہوا۔ اسی عہد میں مشہور مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم نے بخارا، خوارزم(جسے انگریزی میں خیویاخیوا بھی کہتے ہیں)، فرغانہ، تاشقند اور کاشغر کے مشہور علاقے ترکوں سے چھینے اور وہاں اسلامی حکومت قائم کی۔ لیکن ان فتوحات کا اثر ترکوں کے قبول اسلام پر بہت کم پڑااور وہ بدستور بت پرستی کرتے رہے۔ البتہ قتیبہ جب سمرقند پہنچا تو وہاں اسے بہت سے بت خانے نظر آئے۔ترکوں کو یقین تھا کہ ان بت خانوں کو مسمار کرنے والا اور ان میں رکھے ہوئے بتوں کے ساتھ بے ادبی کرنے والا فوراً ہلاک ہو جائے گا۔ لیکن جب قتیبہ نے ان سب کو آگ لگا دی اور اس کا بال بھی بیکا نہ ہوا تو ترکوں نے یہ ”کرامت“ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو قتیبہ بن مسلم بت شکنی میں محمود غزنوی کا پیش رو تھا۔

عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں اہل عرب اور اہل فارس کے درمیان جو حریفانہ کشمکش پیدا ہوئی اس نے امین الرشید کے زوال کے ساتھ عربوں کی قوت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشید کی ماں ایرانی النسل تھی۔ چنانچہ اس کے عہد میں ایرانیوں کا زور بہت بڑھ گیا۔ اس کے بعد جب معتصم خلیفہ ہوا تو اس نے ایرانیوں کے اقتدار سے خائف ہو کر ترکوں سے مدد حاصل کرنا چاہی کہ اس کی والدہ ترک تھی۔ اس نے ہزاروں کی تعداد میں ترک غلاموں کو فوج میں بھرتی کیا اور یوں ترکوں کی قوت تیزی سے بڑھنے لگی۔ یوں دسویں صدی عیسوی تک ماورا النہر تک کے غیر مسلم ترک حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔

حکومتی کاروبار میں ترکوں کا عمل دخل اس قدر بڑھ گیا کہ یہ لوگ جسے چاہتے خلیفہ بناتے اور جسے چاہتے معزول کر ڈالتے۔ انہوں نے متعدد خلفاء کو قتل کیا اور متعدد کو تخت سے اتارا اور یہی چیز آخر کار خلافت عباسیہ کے زوال کا سبب بنی۔ مختلف صوبوں کے گورنروں نے مرکز سے آزاد ہوکر اپنی اپنی خود مختار حکومتیں قائم کرلیں۔مثلاً خراسان میں ظاہریہ، فارس میں صفاریہ، ماورا النہر میں سامانیہ، آذربائیجان میں ساجیہ اور جرجان میں زیاریہ نے جداگانہ ریاستیں قائم کرلیں۔ یہ تمام صوبے ایران میں تھے اس طرح مصر میں طولونیہ،ترکستان میں ایلکیہ اور ہندوستان و افغانستان میں غزنویہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس طرح گیارہویں سے تیرہویں صدی ہجری تک خلیفہ بغداد کے ایشیائی مقبوضات کا بیشتر حصہ اس سلجوق کے زیر نگیں رہا۔

تیرہویں صدی کی ابتداء میں شاہان خوارزم کی قوت اوج شباب پر تھی۔ وہ ایران، شام اور عراق کے بیشتر علاقوں پر قابض ہو چکے تھے کہ چنگیز خانی طوفان نے ان کی سلطنت کو پارہ پارہ کر دیا۔ اس افراتفری میں بعض ترک قبائل فرار ہو کر ملک خراسان سے نکل کر ملک شام کی طرف جا رہے تھے۔ ان میں ارطغرل کا قبیلہ بھی تھا۔ اس نے رفتہ رفتہ اپنی قوت کو مجتمع کیا اور آس پاس کے امیروں کو اپنا مطیع فرمان بنایا۔ جب 90سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوا تو اس کا بڑا لڑکا عثمان 1288ء میں اس کا جانشین ہوا۔ یہی لڑکا دولت عثمانیہ کا بانی اور سلطنت عثمانیہ کا پہلا تاجدار تھا۔

عثمان اور آل عثمان

یہ وہ زمانہ تھا جب دولت سلجوقیہ دم توڑ رہی تھی اور ایشیائے کو چک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسے میں عثمان کو اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کرنے کے بیشتر مواقع میسر آئے۔ عیسائی سلطنت جسے بازنطینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے، روبہ زوال تھی۔ عثمان نے اس وجہ سے بھی بازنطینی سلطنت کو نیچا دکھانے کی کوشش شروع کی کہ وہاں اسلام کی تبلیغ کی جا سکے۔ 1300ء میں تاتاریوں نے ایشیائے کوچک پر ایک اور حملہ کیا۔ انہوں نے دولت سلجوقیہ کے آخری تاجدار غیاث الدین کو قتل کر دیا اور اس طرح اس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ عثمان کے لئے اب میدان صاف تھا۔ اس نے کل 26سال حکومت کی اور آس پاس کے علاقوں کو فتح کرکے ایک مضبوط سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔1326ء میں جب عثمان نے وفات پائی تو اپنے چھوٹے بیٹے اورخاں کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس کے بڑے بھائی کا نام علاؤ الدین تھا جس نے اپنا بیشتر وقت علوم دینیہ کی تحصیل میں صرف کیا۔ فن حرب سے اگرچہ اس کو زیادہ لگاؤ نہ تھا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس نے اپنے چھوٹے بھائی اورخاں کی قیادت میں دولت عثمانیہ کا وزیراعظم بننا قبول کرلیا اور اس نے جو اصلاحات نافذ کیں ان میں فوج کی تنظیم نو پر بہت زور دیا۔

فوج

علاؤ الدین نے جو فوجی اصلاحات نافذ کیں ان سے دولت عثمانیہ کی طاقت دفعتا بڑھ گئی جو 300برس تک اس کی حیرت انگیز فتوحات کی ضامن رہی۔ ارطغرل اور عثمان کے زمانے میں کوئی باقاعدہ فوج نہ تھی۔ جب کوئی لڑائی یا جنگ پیش آنے والی ہوتی تو پہلے سے اعلان کر دیا جاتا کہ جو شخص لڑائی میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ فلاں روز فلاں مقام پر حاضرہو جائے۔چنانچہ بیشتر فوج رضاکاروں پر مشتمل ہوتی تھی یہ لوگ لڑائی یا جنگ کے خاتمے پر واپس گھروں کو چلے جاتے تھے۔ انہیں کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ جو مال غنیمت ہاتھ آتا وہی ان کا معاوضہ ہوتا اور کوئی مخصوص یونیفارم نہ تھی۔ کوئی مخصوص ہتھیار نہ تھے۔ باایں ہمہ یہ لوگ اعلیٰ پایہ کے تلوار باز اور شاہسوار ہوتے تھےّ لیکن عثمان کے بعد جب سلطنت کی توسیع ہوئی تو اس کے لئے یہ نظام ناکافی ثابت ہوا اور ایک مستقل فوج کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔چنانچہ علاؤ الدین نے تنخواہ دار ٹروپس کی ایک فوج مرتب کی جس کا نام پیادہ رکھا۔ یہ تنظیم دس دس،سو سو اور ہزار ہزار کے مختلف دستوں میں تقسیم تھی جس کو آج کی اصطلاح میں بالترتیب سیکشن، کمپنی اور بٹالین کہا جا سکتا ہے۔ یہ تنظیم گو یا ترک  انفنٹری کی اولیں تنظیم تھی۔ ان کی تنخواہیں بھی بہت زیادہ تھیں اور ان پیادوں کومراعات بھی کافی حاصل تھیں جن کی وجہ سے ان لوگوں میں غرور اور تکبر پیدا ہو گیا۔ ان کی سرکشی اور خودسری خود اورخان کے لئے تشویش کا باعث بن گئی۔ چنانچہ اورخان نے اپنے بھائی علاؤالدین اور ایک وزیر خیر الدین پاشا سے مشورہ کیا۔ خیر الدین نے ایک ایسی تجویز پیش کی جس نے آنے والی تین صدیوں تک عثمانی فتوحات کی رفتار میں سیلاب کی سی قوت اور سرعت پیدا کر دی۔ (جاری ہے)

مزیدخبریں