جوش سے کام لینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں مسلمان علماء اور سیاسی کارکن انگریز فوج کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے، پھانسیاں دی گئیں 

Oct 21, 2024 | 09:53 PM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:60
پہلے یہ عدالتی نظام خاصہ مختصر تھا مگر آبادی اور جرائم کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ ان عدالتوں کا پھیلاؤ بھی وسیع تر ہو گیا ہے۔ اب یہ عدالتیں مجسٹریسی نظام کے علاوہ سول ججوں، سینئر سول ججوں، سپیشل ججوں، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں اور سیشن ججوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد اعلیٰ عدلیہ جس میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس (فیڈرل کورٹس) شامل ہیں۔
ہمارے ہاں یہ عدالتی نظام انگریزی عہد تک بہترین نتائج دے رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریز اور اس کے گماشتوں کو اس ملک اور سرزمین سے کوئی محبت نہیں تھی اور نہ ہی وہ اس ملک کے عوام کی محبت میں گرفتار تھے۔ انہیں اس بات کا علم تھا کہ مقامی لوگوں میں انصاف کرنے سے انگریز حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا۔ مقامی لوگوں کا انگریزی قانون پر اعتماد بڑھے گا۔ انگریزی عدالت اگر جرم کرنے والے کو سزا دیتی ہے تو بھی انگریزی خزانہ کو فائدہ ہوتا ہے اور جس کو بری کر دے وہ ویسے ہی اظہار ممونیت میں غلام ہو جاتا ہے اور فرنگی راج کی طوالت میں اضافہ کی بنیاد بنتا ہے۔ انڈیا کے عام شہریوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندو اور ہندوانہ رسومات پر یقین رکھنے والوں کی تھی۔ اس لئے ہندو شہریوں کی تعلیم پر بھی انگریز نے زیادہ توجہ کی۔ ہندو اور غیر مسلم آبادی چونکہ سینکڑوں برسوں سے مسلمانوں کے زیر نگین تھے اس لئے انہوں نے فرنگی ترغیبات کو فوراً قبول کر لیا اور انگریزی تعلیم سے بہرہ ور ہونے لگے۔ اس طرح انگریز کے نظام حکومت میں ہندو اس کا بہترین آلۂ کار بن گیا۔ حکمرانوں کے ساتھ یہ ہم آہنگی ہندو آبادی کو آسودہ کرتی رہی۔ ہندوؤں نے جلد ہی انگریزی تعلیم کے مراحل طے کرنے شروع کر دیئے اور انگریزی حکومت میں انگریز کے معاون خصوصی بن گئے۔
دوسری طرف انڈیا کا سابق حکمران طبقہ مسلمان تھے۔ جو تعداد میں کم تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی۔ ہندی زبانوں سے رابطہ بہت کم تھا۔ چونکہ مسلمان زیادہ تر افواج اور انتظامیہ کا حصہ تھے اس لئے خودسری ان میں زیادہ تھی۔ انگریز نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اور اب انگریز ہندو کے ساتھ التفات برت رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مسلمان اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے فرنگی کے ساتھ مخاصمت آمیز رویہ اختیار کرنے لگے۔ ہندو سرمایہ دار اور سیاست دان، مسلمان علماء کے نیاز مند بن گئے کہ وہ انگریز کے خلاف فتوے جاری کریں۔ انگریزی تعلیم سے دوری اختیار کریں۔ مسلمانوں کو ہمیشہ روپے کی ضرورت رہی ہے اور ہندو اس روپے کی طاقت کو استعمال کرنا جانتا تھا اور مسلمانوں کا یہ رویہ بن گیا کہ ہوش کی بجائے جوش سے کام لینا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں مسلمان علماء اور سیاسی کارکن انگریز فوج جس کی اکثریت ہندو افراد پر مشتمل تھی کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے۔ ہزاروں علماء کرام اور مسلمان سیاسی کارکنوں کو 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران اور بعد میں پھانسیاں دی گئیں اور اُنہیں شہید کر دیا گیا۔ حالات کی اس خوفناک شدت میں مسلمانوں کی صفوں سے سرسید احمد خان جیسے رہنما سامنے آئے جنہوں نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کرنے کی کامیاب کوشش کی اور علی گڑھ میں مسلم کالج بنایا جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے معروف ہوا۔بہت سے سکولوں اور کالجوں میں مسلمان نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے ترغیبات دی گئیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں