ظلم رہے اور امن بھی ہو؟

ظلم رہے اور امن بھی ہو؟

  

متنازع فلم کے بارے مےں عالمِ اسلام اور خود کئی مغربی ممالک بھی سراپااحتجاج ہےں۔ پاکستان مےں ہمےشہ کی طرح رائے عامہ تقسےم ہے۔ اب تو اس ان پڑھ ےا کم پڑھی لکھی رائے عامہ پر ٹی وی چےنل بھی 2002ءسے ہتھوڑے برسا رہے ہےں۔ ےہ وہ دور تھا جب جنرل پروےز مشرف نے نائن الےون کے بعد ےو ٹرن لےا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری رےڈےو، ٹی وی اور تمام پرائےوےٹ ٹی وی چےنلوں نے اپنی اپنی سکرےنےں اور سپےکر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حماےت مےں کھول دےئے تھے اور امرےکہ و افغانستان کے درمےان برپا جنگ کو اپنی جنگ قرار دے دےا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن ٹی وی چےنلوں پر نمودارہونے والے 95فےصد دانشور، خواتےن و حضرات دہشت گردی اور امرےکہ کے بارے مےں اےک ہی طرح کے تجزئیے کر رہے ہےں۔ لفظوں کی اس بھرمار کا جادو تو چلنا تھا۔ نتےجتاً ہمارے عوام الناس اہم ترےن اےشو پر بھی مزےد بے حِس رہنے اور چُپ سادھ لےنے کے عادی ہو گئے ہےں۔

عوام الناس نبی آخر الزمان محسن انسانےت ﷺکی شان اقدس مےں گستاخی پر بھی محض اےک آدھ فقرہ ادا کرنے کی زحمت سے زےادہ کچھ نہےں کرتے۔ بے حِسی کی اےسی تےرگی اور روشن خےالی کا جدےد فےشن پہلے تو اےسا نہےں تھا۔ نوبت اب ےہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کئی نامور سےاستدان اور ٹےکنوکرےٹس بھی اب امرےکہ کے خلاف لب کشائی سے پہلے سو بار سوچتے ہےں کہ کہےںاےسا نہ ہو جائے، کہےں وےسا نہ ہو جائے۔ نگران سےٹ اپ بھی آنے والا ہے ، پھر عام انتخابات کے بعدہنگ پارلےمنٹ اور وزارتوں مےں اپنا حصہ بھی وصو ل کرنا ہے ۔ ٹی وی چےنلوں کے ہماری قوم پر ان گنت احسانات ہےں۔ انٹر نےٹ کو بھی داد دےجئے۔ اس نے متنازعہ فلم کی تارےخ کے بارے مےں جستجو کرنے والے بہت سے نوجوانوں کو باخبر بنا دےا ہے۔ اب وہ نوجوان باخبر اور باقی تمام دنےا بے خبر ہے۔کچھ لوگ ےہ بھی کہتے سُنے گئے ہےں کہ اب آئے روز اےسی ہرزہ سرائی شروع ہو گئی ہے کہ اس کے بارے مےںبھی کوئی ٹھوس اور مستقل حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

تمام ممالک مےں ان کے آئےن، عدلےہ، فوج اور پارلےمنٹ کی توہےن نہےں کی جا سکتی ۔ خود کو مہذب معاشرہ ظاہر کرنے کے شوق مےں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کےا جا سکتا ہے۔ اقلےتوں کے حقوق ادا کرنے کا اظہار کےا جاتا ہے، لےکن سوال ےہ ہے کہ کےا ستاون مسلم ممالک اور ڈےڑھ ارب مسلمان اتنی غےر اہم اقلےت ہےں کہ ان کے پےغمبر اکرمﷺ کی شان مےں آئے روز مختلف طرےقوں سے گستاخی کر دی جائے ،پھر ان سے پُرامن احتجاج کا حق بھی چھےن لےا جائے،جبکہ حضور اکرم تو صرف ان ڈےڑھ ارب مسلمانوں کے ہی نہےں ،بلکہ پورے عالم انسانےت کے محسن ہےں۔ بلا شبہ ان کے ذکر کو بلند کرنے کا دعویٰ اور وعد ہ اللہ رب العالمےن نے کےا ہے۔ دنےا بھر مےں بسنے والے انسانوں کے حقوق کی علمبردار اقوام متحدہ (UNO) کو اپنے انسانی حقوق کے چارٹر مےں فی الفور ےہ ترمےم کرنی چاہےے کہ کسی بھی مذہب کی کسی بھی صورت مےں دل آزاری نہےں کی جائے گی۔

آزادیءصحافت کے نام پر عالم اسلام کے دلوں کو شدےد ٹھےس پہنچانے والے ےہ کےوں بھول جاتے ہےں کہ وہ عالمی ادارے جن پر ہمےشہ ان کے تحت صحافےوں کی بےن الاقوامی تنظےم نے نومبر1974ءمےں "صحافت کا عالمی ضابطہ اخلاق"منظور کےا تھا۔ اس کا تےسر انکتہ ےہ تھا کہ کسی فرد، افراد ےا کسی مذہبی گروہ کی توہےن کرنے کے لئے صحافت کے ذرےعے کوئی حملہ نہےں کےا جائے گا۔ اس کا پانچواں نکتہ ےہ تھا کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے پھےلاﺅ کے لئے کوئی کوشش نہےں کرے گا۔ سماجی، نسلی اور مذہبی تعصبات اور نفرت کی حوصلہ افزائی ہرگز نہےں کرے گا۔ اقوام ِ متحدہ کے کچھ ممبر ممالک نے ان سب قوانےن کی سرعام (Violation)کی ہے۔

سبھی جانتے ہےں کہ فلم ابلاغ کا مو¿ثر ترےن ذرےعہ ہے۔ سائنس اور ٹےکنالوجی کے جدےد ترےن دور مےں کسی بھی فلم کو مختلف ذرائع ابلاغ سے چند لمحوں مےں دنےاکے ہر کونے مےں پھےلا ےا جا سکتا ہے۔ اےک رپورٹ کے مطابق 936سے زائد اسلام مخالف وےب سائٹس انٹر نےٹ پر موجود ہےں ۔ ان وےب سائٹس مےں ہر طرح کا مواد موجود ہے۔ سوشل مےڈےاکی تےزی سے پھےلتی ہوئی دنےا اب مسلم نوجوانوں سے نئے تقاضے کر رہی ہے۔ ان کا اولےن فرض ہے کہ پروپیگنڈے کے اس منہ زور سےلاب کے آگے بند باندھےں، لےکن ان نوجوانوں کی تن آسانی لہو رلاتی ہے، کےونکہ اس پروپےگنڈے کا جواب دےنے کے لئے پہلے بہت سا علم حاصل کرنا پڑتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے انٹرنےٹ کا استعمال بہت کم لوگ کرتے ہےں۔

ہمارا الےکٹرانک مےڈےا تو اپنے ڈراموں اور پروگراموں کے ذرےعے ےہ درس دے رہا ہے کہ اگر اسلام اور پاکستان کی بات کی تو تمہارا امرےکہ کا وےزہ لگنے کی بجائے گوانتاناموبے جےل کا وےزہ لگ جائے گا۔ اعلیٰ تعلےم ےافتہ طبقے کے دل مےں ےہ خوف پاےا جاتا ہے کہ امرےکہ کے خلاف احتجاج کرنے کے نتےجے مےں وہ امرےکہ کی کرم نوازےوں سے لطف اندوز نہےں ہو سکےں گے۔

عالم اسلام کی سب سے بڑی بدقسمتی ےہ ہے کہ اس کے حکمران اپنے عوام کی اکثرےت کی ترجمانی نہےں کرتے۔ وہ اپنے عوام کی نسبت امرےکہ سے زےادہ خوفزدہ ہےں، کےونکہ ان کے مفادات بھی بہت زےادہ ہےں۔ ڈالر دےنے والے، اےمان اور جان لے لےتے ہےں،اسی لئے تو پاکستان مےں مسلسل ڈرون حملے کرنے والے، افغانستان اور عراق مےں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہانے والے امرےکہ کا ےہ حکمران اور زر خرےد نام نہاد دانشور طبقہ امرےکہ کے جذبات کا بہت خےال رکھتا ہے،جبکہ حقےقت ےہ ہے کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کر کے امرےکہ دہشت گردی کی جنگ مےں اضافہ کر رہا ہے۔ اےسے شرپسند عناصر کی سرپرستی اور پشت پناہی کرنا دہشت گردی کے جنگ کو مزےد بھڑکانے کے مترادف ہے۔ کاش امرےکہ ہوش کے ناخن لے....

اسی لئے تو حبےب جالب کہہ گئے تھے:

ظلم رہے اور امن بھی ہو ؟

کےا ممکن ہے ؟ تم ہی کہو

مزید :

کالم -