پنڈوراباکس کھل رہاہے

پنڈوراباکس کھل رہاہے
 پنڈوراباکس کھل رہاہے

  

خیر سے پنڈورا باکس کھلنا شروع ہوا ہے تو یوں لگتا ہے کہ وطنِ عزیز کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں صاحبانِ اختیار نے ہاتھ صاف نہ کیا ہو۔ جو مال بھی ہاتھ لگا اسے جی بھر کے لوٹا۔ ہزاروں لاکھوں کی نہیں کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن ،دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے۔ویسے منو بھائی نے تو اپنی نظم میں کہا تھا:

احتساب دے چیف کمشنر، صاحب بہادر

تہانوں ایہناں فائلاں وچوں کجھ نہیں لبھناں

لیکن ڈھونڈنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں اوریہ طریقہ بھی جانتے ہیں کہ کرپشن کے ان ’’فٹ پرنٹس‘‘ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے ۔خدا نے بھی مکافاتِ عمل کا ایک نظام بنا رکھاہے ۔ واردات ڈالتے ہوئے انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ہے کہ روزِ محشرسے پہلے ہی یہ کاغذ پر لکھے الفاظ اس کے خلاف ایک دن ضرور گواہی بن جائیں گے۔ اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ انسان جب حرص و ہوس کا غلام بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنا نام و نسب کیسے بھول جاتا ہے، وہ کیسے بھول جاتا ہے کہ میں پاکستان بنانے والے، اس کی بنیادیں رکھنے والے اور اس کی تعمیر وترقی میں اپنا تن من دھن لٹا دینے والے اعلیٰ وارفع خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔یہ خاکِ وطن تو میری جان ہونی چاہیے ، میں اسے ہی بیچ کر کھا جانا چاہتا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی نے بہت پہلے متنبہ کیاتھا :

جولوگ خاک وطن بیچ کے کھا جاتے ہیں

پھر اپنے ہی قتل کا کرتے ہیں تماشا کیسے؟

اس دور میں یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ صاحبانِ اقتدار واختیار حکمران اور بیوروکریسی اس وطن سے سب کچھ لوٹ کر باہر کے بینکوں میں منتقل کرواتے جاتے ہیں یاوہاں اپنے وسیع بزنس اور پراپرٹی وغیرہ بناتے ہیں اور ذرا کڑا وقت آنے کی بھنک پڑنے پر بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں۔ایسے بااثر ترین افراد کے بارے میں آج کل معلوم ہورہا ہے کہ غیر قانونی طور پر ان کے لئے آنا جانا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ چیک کرنے والے عملے کو بھی اس وقت نیند آجاتی ہے، لہٰذا یہ لٹیرے اپنے ہی قتل کے تماشے سے بھی بچ جاتے ہیں۔ ہاں ایسا ایسے ملک میں ہونا کوئی مشکل بھی نہیں جہاں جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت کی حاکمیت ہو۔

پنڈورا باکس کھلنے سے پتہ چلا ہے کہ صرف کراچی جیسے عروس البلاد کی ہی رونقیں نہیں چھین لی گئیں، بلکہ سندھ کے اندر پستا ہوا غریب اور مفلوک الحال ہاری بھی اسی طرح جاں بلب ہے۔ تھر میں قحط کی سی کیفیت رہی اور بچے دم توڑتے رہے۔ اور یہ ساری مجرمانہ غفلت وہاں کے حکمرانوں کا وطیرہ بن چکی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ صحت کے بعد سب سے زیادہ بُرا حال تعلیم کا ہے۔ وہاں بھی کرپشن کابازار گرم ہے۔نقل کلچر عام ہے۔ہر قسم کی بدعنوانی کھلے بندوں ہورہی ہے۔ایک مدت سے حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔وہاں غیر سرکاری تنظیمیں بھی دم سادھے نظر آتی ہیں۔صرف چند ایک خلوص کے ساتھ محنت بھی کررہی ہیں، لیکن اکثریت بیرون ممالک سے براہِ راست یا بالواسطہ فنڈنگ پراپنا پیٹ پال رہی ہیں۔ ویسے بھی ان کا ایجنڈا اور ہدف بڑے شہر نہیں، بلکہ چھوٹے قصبے اور دور افتادہ دیہات زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں کے سادہ لوح عوام راہِ راست پر جلد آ جاتے ہیں۔ ان چھوٹے علاقوں میں وہ بچوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور دودھ وغیرہ بھی فراہم کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ تفریح کے نام پر مختلف تھیٹر قائم کرکے اپنے ڈھب پر لانے والی ذہن سازی کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ان این جی اوز کے بھی مختلف معیار ہیں۔اسلام آباد ، لاہور اور پشاور جیسے شہروں میں کوئی چھوٹا واقعہ رونما ہوجائے تواحتجاج کرکے ، اخلاقیات سے مبّرا ہر طرح کی گفتگو کرکے اور نعرے لگاکر یہ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔اور اسی وقت دوسری طرف کراچی اور حیدر آباد جیسے شہروں میں روزانہ تیس، پنتیس افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوجائیں تو یہ طویل خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں۔حالانکہ تقریبا تمام ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں ان کا ایک نہ ایک نمائندہ ضرور بیٹھاہوتا ہے۔

سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے اس پنڈورا باکس کے کھلنے پر شدید ناراضی اور غم وغصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ احتساب ضرور ہونا چاہیے، لیکن سب کا بے دریغ احتساب ہونا چاہیے۔پھر معززین ریاست کو یہ بھی اعتراض رہا کہ یہ روزانہ ٹی وی چینلوں پران کے خلاف میڈیا ٹرائل کو بھی روکا جائے۔ یہ توبھلا ہومیڈیا کا کہ یہ گھروں میں بیٹھے بے خبر کروڑوں عوام کو بھی اپنے طور پر باخبر کرنے کا بہت اعلیٰ فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ چلو مسابقت اور ریٹنگ کے چکر میں ہی سہی۔کچھ نہ کچھ سچ تو لوگوں تک پہنچ ہی رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ عوام الناس کی تہذیب اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرنے پرتلی ہوئی ہے۔ کیوں کہ جہاں اسمبلی کا امیدوار، ٹی وی چینلوں کی کوریج کے مطابق ،جلسہء عام میں برملا کہتا ہوکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں اور میرا خاندان فلاں فلاں کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس کے باوجود وہ ہری پور ہزارہ میں واضح اکثریت سے جیت جائے توکہاں کی جمہوریت ، آئین اور دفعہ 62،63 ؟

مقتدر اداروں کی سخت گرفت نے ناعاقبت اندیش سیاستدانوں اور حکمرانوں کو یہ دن دکھا دیے ہیں کہ انہیں بیرونِ ملک بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول سے سیاسی پارٹیا ں چلانی پڑرہی ہیں۔کبھی اسمبلی سے استعفوں کا ڈرامہ رچاتے ہیں اور کبھی مفاہمت کی سیاست ترک کرنے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ بھی تو خاندانی جمہوریت کاہی شاخسانہ ہے کہ آج بیٹا اپنی ماں اور باپ کی پالیسیوں کامخالف بن گیاہے اور وہی صدقے جانے والے ویر یعنی برادرانِ یوسف اور سب سے بھاری کو ہلکا کرنے والے جیالے جاگتی آنکھوں سے نئے خواب دیکھنا شروع ہوچکے ہیں۔ابھی عالمی یوم جمہوریت گزرا ہے پاکستانی جمہوریت کو اس پیمانے سے بھی ناپنے کی ضرورت ہے۔

پنڈوراباکس کھلا ہے تو احتساب کا عمل سندھ سے کے پی کے اور پنجاب میں داخل ہوتا نظر آتا ہے۔کے پی کے کی حکمران جماعت یعنی پی ٹی آئی تو پہلے ہی اپنے وزراء اور دیگر ممبران سے اعلان لاتعلقی کرتی رہتی ہے۔ ان حضرات کو ٹی وی چینلوں پر دیکھ کر دولت کی چمک میں ’’ریشِ حنائی ‘‘بک جانے پر دلی افسوس ہوتا ہے۔افسوس وہاں بات صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ معمارانِ قوم کی بھی گرفتاریاں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ان معمارانِ قوم کی دلی ہمدردیاں جس بھی سیاسی جماعت سے ہوں ، ہم پیشہ اور ہم مشرب ہونے کی وجہ سے ہم سب کا سر جھک جانا ایک فطری امر ہے۔دراصل وہاں بھی فقیروں کی کمائی ہی لٹ گئی ہے، لیکن اس صوبے کے کپتان ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان کو غالبا احساس نہیں ہے کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر تبدیلی آگئی ہے کہنا بہت آسان کام ہے، لیکن طرزِکہن پر اڑنے والی قوم کے پتھر دلوں کو پانی کرنا اور’’ گل محمد‘‘ کو زمین کے ساتھ ساتھ ہلانا بہت مشکل کام ہے۔ زمیں جُنبدنہ جُنبدگل محمد۔

پنڈورا باکس سے کچھ نہ کچھ پنجاب کے بارے میں بھی نکلنا شروع ہوگیا ہے ورنہ ان اشرافیہ کے متعلق تو عموما تاثر اچھا تھا حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ وہ تو گنگا نہائے ہوئے ہیں۔نندی پورپاور پراجیکٹ توایک ہے، وقت آنے پر پتہ نہیں کیاکیا سامنے آئے گا۔ لگتا ہے کہ رحمن اور رحیم ابھی صرف متنبّہ کررہا ہے اور جھٹکے دے رہا ہے۔آخر ان غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی آہیں ساتویں آسمان تک پہنچ رہی ہیں، جو اپنے بچوں سے لے کر گرد ے بیچنے تک مجبو ر ہوچکے ہیں۔ جو آئے روز اس ہنستی بستی دنیا سے منہ موڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں حالانکہ بطور مسلمان ہمارا پختہ ایمان رہنا چاہیے کہ خودکشی بہر صور ت حرام ہے اور مسائل کا حل ہر گز نہیں ہے۔ آخر ایسے افسوس ناک واقعات کے اثرات و نتائج حکمرانوں پر بھی تو پڑتے ہیں۔

اس پنڈورا باکس کے کھلنے سے مالی کرپشن کی بہت سی محیرالعقل مثالیں سامنے آئی ہیں۔ جیسے وکلاء کہتے ہیں کہ کاغذ بولتے ہیں اور کئی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی طرح محکموں کی فائلیں اگر ایل ڈی اے پلازہ یا سرکاری دفاتر میں پراسرار طورپر آگ نہ لگوا دی جائے تو ایک نہ ایک دن ضرور بولتی ہیں اور ان فائلوں سے کرپشن کی جڑ تک پہنچنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لہٰذا احتساب کے چیف کمشنر کو چاہیے کہ وہ’’ مّدعا‘‘ غائب کر دینے کی ہر کوشش اور واقعہ کا بہت سختی سے نوٹس لے ورنہ واقعی ان فائلوں سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ریکارڈ عقلمندی اور بہادری سے قبضے میں لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ایسے موقع پر ہر متعلقہ محکمہ انکار کر دیتا ہے کہ ریکارڈ اس کے پاس نہیں۔

ہمارے ٹی وی چینلز کے اینکر پرسن اور تجزیہ نگار بھی بہت دلچسپ ہیں۔آپریشن ضرب عضب شروع ہونے پر بہت خوش اور اور بغلیں بجاتے نظر آرہے تھے اور انہیں ہر برائی دینی مدارس میں نظر آرہی تھی۔ ان کے نظام اور نصاب کو انہوں نے ایک پروپیگنڈا مہم بنا دیاہے۔ دوسری طرف ان مدارس کے سربراہان دینی علماء نے بھی ٹی وی چینلوں پر این جی اوز کی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کروانے کی بات بھی اتنے ہی زور سے کردی۔ اس کے جواب میں این جی اوز کی تیز طرّار خواتین اور نمائندے بہت نرم پڑتے دکھائی دیے۔ سب کو یادہوگا کہ وزیر داخلہ پنجاب کرنل ریٹائرڈشجاع خانزادہ شہید نے اپنی شہادت والی رات ایک بڑے ٹی وی چینل کے پروگرام ’’بدل دو ‘‘میں این جی او ز کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کے اس حصے کابھی ذکر کیا تھاکہ این جی اوز کا احتساب بھی ضرور کیاجائے گاتو این جی اوزکی سرپرست اعلیٰ خاتون سب کو سبق سکھا دینے کی دھمکیاں دے رہی تھیں۔اور اپنے آپ کو ہر حکومت اور قانون سے بالاتر ثابت کررہی تھیں۔کوئی اس ظلم پر بول نہیں رہا تھا۔

حرفِ آخر یہ کہ سب کا بے رحم اور کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ قائد اعظمؒ نے 11اگست 1947ء والی تقریر میں کرپشن ، اقرباء پروری اور لوٹ مار سے منع کیا تھا اور موجودہ این جی اوزکے متحرک سابق انقلابیوں کے سابق پیرومرشد فیض احمد فیض بھی کہہ گئے تھے کہہ:

ہر اک اولی الامر کو صدا دو

کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے

اٹھے گا جب جمع سرفروشاں

پڑیں گے دارورسن کے لالے

کوئی نہ ہو گا جو بچالے

جزا و سزا سب یہیں پہ ہو گی

یہیں عذاب و ثواب ہو گا

یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر

یہیں پہ روزِ حساب ہو گا

مزید :

کالم -