مستقبل میں روز گار کے مواقع فراہم کرنے والا پنجاب میں سب سے بڑا ہمارا ادارہ ہو گا

مستقبل میں روز گار کے مواقع فراہم کرنے والا پنجاب میں سب سے بڑا ہمارا ادارہ ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پبلک سیکٹر میں چلائے جانے والے اداروں میں خساروں اور مشکلات کی ایک طویل داستان ہے جو پاکستان کی معیشت کو خساروں سے دوچار کرنے میں ایک مقام رکھتی ہے لیکن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے اداروں جن میں بڑی حد تک کنٹرول حکومت کا ہوتا ہے لیکن اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر پرائیویٹ سیکٹر براجمان ہوتا ہے ۔ اس سوچ کے تحت صوبہ پنجاب میں معرض وجود میں آنے والے ادارہ پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کو 2003میں حکومت پنجاب نے ایک ارب روپے کا قرضہ دیا آج اس کے اثاثے بارہ ارب روپے سے تجاوز کر گئے۔ اس ادارہ نے ایک انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے سے کام شروع کیا آج یہ ادارہ حکومت یا کسی مالیاتی ادارہ سے ایک دھیلے کا قرضہ حاصل کئے بغیر سات انڈسٹریل اسٹیٹس کا انفراسٹرکچر بنانے پر لگا ہوا ہے۔یہ انڈ سٹریل اسٹیٹس مستقبل میں ملکی اثاثوں میں ایک نیا اضافہ ہوں گ�ئملک اور قوم کا اثاثہ ہونے کے ساتھ اپنی تمام انڈسٹریل اسٹیٹس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہ ادارہ اور اس کے ماتحت انڈسٹریل اسٹیٹس آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو براہ راست اور کم از کم پچاس سے ساٹھ لاکھ افراد کو بالواسطہ روزگار فراہم کر رہی ہونگی اور اس وقت بھی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد کو براہ راست اور آٹھ سے دس لاکھ افراد کو بالواسطہ روزگار فراہم کر رہے ہیں۔یہ کوئی دیوما لائی کہانی نہیں بلکہ پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کی کہانی ہے جس کے جواں ہمت سربراہ نے پانچ سالوں میں اس ادارہ کو جو 2010سے قبل اپنے سٹاف کی تنخواہیں ادا کرنے کیلئے قرض مانگنے کی پوزیشن میں آگیا تھا۔پانچ سالوں میں اسے ایسی تبدیلی سے ہمکنار کر دیا ہے جو صوبہ کی صنعتی تاریخ کا درخشاں باب ہے ۔پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کے چئیرمین ایس ایم تنویر کا کہنا ہے کہ اگر انہیں ڈیم بنانے یا بجلی کے کارخانے لگانے کا ٹاسک دیا جائے تو یہ معرکہ بھی سر کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں ورثہ میں جو تربیت ملی ہے اس کا فیضان یہ ہے کہ کاروبار کو بہتر کیسے بنانا اور غیر منافع بخش کاروبار کو نفع بخش کاروبار میں کیسے تبدیل کرنا ہے۔ان کے والد ایس ایم منیر آج کل ٹریڈ ڈویلپمنٹ اٹھارٹی پاکستان کے چئیرمین اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ ایس ایم تنویر کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی کامیاب حکمت عملی اور پالیسیوں نے انہیں حوصلہ دیا ہے کہ وہ پنجاب اینڈسٹریل اسٹیٹس کے ڈوبتے ادارہ کو آج کامیابی کی راہ پر ڈال چکے ہیں یہ ادارہ ایک قومی اثاثہ ہے جس کی حفاظت بہت ضروری ہے ۔ ان سے سوال و جواب کی نشست نظر قارئین ہے۔

سوال: پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کی مالیاتی صورتحال جب آپ نے چیئرمین شپ سنبھالی کیا تھی اور آج کیا ہے؟
جواب :چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے موقع پر مجھے آگاہ کیا گیا کہ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں پیڈمک کو مشکلات کا سامنا ہے آج صورتحال یہ ہے کہ اس کے اکاؤنٹ میں ایک ارب -21کروڑ روپے سے زائد فنڈز موجود ہیں جبکہ مختلف اضلاع میں بنائی جانے والی انڈسٹریل اسٹیٹس کا نفراسٹرکچر پیڈمک اپنے فنڈز سے تعمیر کر رہی ہے 2010میں اس کا ریونیو71کروڑ 10لاکھ روپے تھا جو بڑھ کر آج ایک ارب اکیاسی کروڑروپے سے تجاوز کر گیاہے اس کے اثاثے 2010میں 6ارب 76کروڑ روپے تھے جو بڑھ کر 12ارب 46کروڑجبکہ ایکویٹی31کروڑ70لاکھ سے بڑھ کر ایک ارب 43کروڑ50لاکھ روپے ہوگئی ہے۔
سوال:روزگار کی فراہمی میں آپ کے ادارہ (پیڈمک)کا کردار کیا ہے؟
2010جواب :میں جب پیڈمک میں آیا تو سندر، قائداعظم اور ملتان انڈسٹریل اسٹیٹس میں مجموعی طور پر 32ہزار افراد براہ راست روزگارکے مواقع سے استفادہ کر رہے تھے۔ پانچ سالوں میں روزگار کی فراہمی میں-340فیصد اضافہ ہوا اور اس وقت ان انڈسٹریل اسٹیٹس میں کام کرنے والوں کی تعدادبڑھ کر ایک لاکھ اکتالیس ہزار تین سو سے بڑھ گئی ہے۔ یہ ملازمتیں براہ راست ہیں اس سے ایک لاکھ اکتالیس ہزار افراد نہیں بلکہاس قدر خاندان روزگار حاصل کر رہے ہیں جبکہ بالواسطہ طور پر روزگار حاصل کرنے والوں کی تعداد چھ سے سات لاکھ ہے۔ان پانچ سالوں کا روشن پہلو یہ ہے کہ جب لاہور، ملتان اور دوسرے شہروں میں انڈسٹریل اسٹیٹس مکمل اور وہاں آبادکاری مکمل ہوجائیگی تو براہ راست8لاکھ43ہزار740افراد کو روزگار حاصل ہوگا جبکہ بالو اسطہ طور پر 40سے 50لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع حاصل ہونگے۔ انہوں نے کہ اکہ صوبہ پنجاب میں مستقبل قریب مین روزگار کے مواقع فراہم کرنے والا یہ سب سے بڑا ادارہ ہوگا۔ جو کہ ملکی صنعتی ترقی کے عمل کو ٓگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوگا۔
سوال: پیڈمک کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا رکھنے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ؟
جواب :آپ دیکھیں کہ ادارے خواہ صنعتی سیکٹر میں ہوں یا حکومتی سیکٹر میں ہوں ان کے استحکام کیلئے بنیاد ی عوامل میں فنانشل مینجمنٹ کا سخت کنٹرول، شفافیت (ٹرانسپرینسی)، احتساب اور اچھی کارپوریٹ گورنس شامل ہیں۔2010میں پیڈمک کمزور فنانشل مینجمنٹ، عدم شفافیت، احتساب سے عاری نظام اور کارپوریٹ گورنس کے فقدان کا شکار تھی۔


چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعدان تمام پہلووں کو مضبوط بنایا گیااور مستحکم بنیادیں فراہم کی گئیں 2010میں بورڈ آف ڈائریکٹر زکی تعداد 23 تھی ان کو کم کر کے 16کردیاگیا اور پرفیشنل بنیادوں پر ڈائریکٹرزکا تقررکیا گیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاسوں کے بروقت انعقاد کو یقینی بنایا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ پانچ سال گزرنے کے باوجود گزشتہ پانچ سالوں سے اکاؤنٹس کا آڈٹ ہی نہیں ہوا تھا 2005سے 2008کے عرصہ کے دوران کے اکاؤنٹس کا آڈٹ مکمل کیا گیا 2005سے2008کے دوران سالانہ اجلاس عام ہی نہیں ہوئے ہر سال سالانہ اجلاس ہائے عام کا انعقاد کیا گیا ۔ اکاؤنٹس میں شفافیت لانے کیلئے انٹرنل اور ایکسٹرنل آڈیٹرز کی تعیناتی کی گئی جبکہ اخراجات کو کم کر نے کیلئے غیر ضروری عملہ کو فارغ اور اخراجات میں کمی کی پالیسی کا نفاذ کیا گیا۔
سوال:ملاز مین کی صلاحیت کار میں اضافہ کیلئیکیا اقدامات کئے گئیے؟
جواب :ہر سطح پر ملازمین کی صلاحیت کار میں اضافہ اور آرگنائیزیشنل سٹرکچر میں بہتری کیلئے اس کو ازسر نو ڈیزائین کیا گیا جس کا بنیادی مقصد پیڈمک کے تحت بننے والے پروجیکٹس پر عملدرآمد کو تیز رفتاری سے مکمل کرنا اور ان کی بروقت تکمیل تھی۔ اس مقصد کیلئے مینیجر بزنس ڈو یلپمنٹ اور مینیجر ٹیکنیکل کی تقرری 2012،میں ملتان میں انٹرنل آڈیٹرز اور پراجیکٹ انجینیر کی اسامیوں کیلئے بذریعہ اشتہار تقرری2013-14،میں رحیم یار خان، بھلوال اور قائد اعظم اپیرل پارک(QAAP)کے پراجیکٹ ڈائریکٹرز کی تقرری2014،میں اور چیف انٹرنل آڈیٹر کی تقرری، گزشتہ سالوں کے آڈٹ کو نمٹانا اوراوریکل فنانشل مینجمنٹ سسٹم پر عملدرآمد شام ہیں۔ ان تمام تر اقدامات سے نہ صرف شفافیت کو فروغ حاصل ہوا بلکہ پورے پیڈمک میں اندرونی طور پر سخت کنٹرول اور مختلف پرا جیکٹس پر شفاف طریقہ سے تکمیل کے مراحل میں تیز رفتاری آئی۔
سوال:گروتھ (شرح ترقی) کے حوالہ سے پیڈمک کی صورتحال جب آپ چیئرمین بنے کیا تھی اور آپ کے دور میں کیا تبدیلی آئی؟
جواب: آپ دیکھیں کہ 2010سے2015کے پانچ سالوں میں پیڈمک کی گروتھ میں حیران کن اضافہ ہوا۔2010میں پیڈمک دو نامکمل انڈسٹریل اسٹیٹس کے ساتھ کام کر رہی تھی اور اس پر 2009میں ایک ارب روپے کا قرضہ واجب الاداتھا۔میرے لیے یہ ایک چیلنج تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ پیڈمک کے سب سے بڑے پراجیکٹ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں محض چار فیصد کالوئینزیشن(آبادکاری)ہوئی تھی اور اپنی استعداد کے مقابلہ میں کارخانوں اور فیکٹریوں کی تعداد چار فیصد تھی۔یہ کریڈٹ محض میرا نہیں میری پوری ٹیم کا ہے کہ گزشتہ پانچ سے چھ سالوں میں متعدد اصلاحات کے نتیجہ میں کالونائیزیشن کی شرح70فیصد تک پہنچ گئی ہے اور سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں تمام صنعتی پلاٹ فیکٹریاں لگانے میں دلچسپی رکھنے والوں کوا الاٹ کر دیئے ہیں اسی طرح 2010میں ملتان انڈسٹریل اسٹیٹ میں کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔2015میں -90فیصد پلاٹس صنعتکاروں اورفیکٹریاں لگانے والوں کو الاٹ کر دیئے گئے ہیں۔ قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ کا انفرا سٹرکچر بری صورتحال سے دوچار تھا سڑکیں ٹوٹی ہو ئیں تھیں جگہ جگہ پانی کھڑا نظر آتا تھا اور دیگر انفا سٹرکچر کی صورتحال بھی ایسی ہی تھی اگر آپ نے قائداعظم (کوٹ لکھپت) انڈسٹریل اسٹیٹ کو پانچ سال پہلے دیکھا ہو تو اسکے انفر سٹکچر کا اض کو ئی موازنہ ہے نہیں آج سڑکیں،گیٹس اور دیگرانفرا سٹرکچر ایک ترتیب میں نظر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ کا اپنا بورڈ آف مینجمنٹ ہے جو اس پوری اسٹیٹ کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ جو بڑی حد تک خود مختار ہے۔
سوال: پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس کے جاری منصوبے کون کونسے ہیں؟
جواب: پیڈمک اس وقت سات انڈسٹریل اسٹیٹس/پارکس پر کام کر رہی ہے جن میں رحیم یار خان، بھلوال، وہاڑی، چونیاں، قائد اعظم اپیرل پارک شیخوپورہ، قائد اعظم سولر پارک بہاولپور اور بہاولپور انڈسٹریل اسٹیٹ شامل ہے۔2012میں رحیم یار خان میں 456ایکڑ پر ،2012میں بھلوال انڈسٹریل اسٹیٹ426ایکڑ پر، 2014میں وہاڑی میں 275ایکڑ پر ، 2014میں چونیاں انڈسٹریل اسٹیٹ282ایکڑ پر، 2015میں 1536ایکڑ پر قائد اعظم اپیرل پارک شیخوپورہ اور رواں سال کے دوران قائداعظم سولر پارک کے انفراسٹرکچر کیلئے کام شروع ہواجبکہ بہاولپورمیں جلد ہی ایک انڈسٹریل اسٹیٹ پر کام شروع ہوگا۔
سوال:پیڈمک کا مستقبل میں کیا مزید انڈسٹریل اسٹیٹس بنانے کا پروگرام ہے؟
جواب :اس وقت دو انڈسٹریل پارکس اور ایک بڑا شہر جس میں انڈسٹریل اسٹیٹ بھی شامل ہوگیء کے منصوبے پلاننگ سٹیج پر ہیں ان میں چینی سرمایہ کاروں کے تعاون سے پنڈدادن خان میں انڈسٹریل سٹی بنانے کا منصوبہ شامل ہے ۔ علاوہ ازیں راولپنڈی اورگجرات میں دو انڈسٹریل اسٹیٹس بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ پیڈمک ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہی ہے اور اس نے پنجاب کے 9اضلاع میں انڈسٹریل اسٹیٹس بنانے کی فیزیبیلیٹی تیا ر کیں ہیں جن میں گجرات ، ساہیوال، اوکاڑہ، بہاولپور،گوجر خان، جھنگ، ڈیرہ غازی خان، بھکر اور بہاولنگر شامل ہیں۔






پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کے چیئر مین
ایس ایم تنویر سے گفتگو

مزید :

ایڈیشن 2 -